فافہم وتدبر 4۔ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ صحیح بخاری رحمہ اللہ میں ہے کہ محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی، إن اللّٰہ قد حرم علی النار من قال لا الہ الا اللّٰہ یبتغی بذلک وجہ اللّٰہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو فرمایا : واللّٰہ ما أظن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم قال ما قلتَ قط۴۸؎ ’’ بخدا ! میں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے کبھی ایسی بات فرمائی ہوگی۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) ان کے انکار کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہر مفہوم یہ ہے کہ گناہگار موحدین جہنم میں نہیں جائیں گے حالانکہ یہ بات بہت سی آیات اور مشہور احادیت کے خلاف ہے۔‘‘ اعتراض معترضین کا محل شاہد اس حدیث میں یہ ہے کہ اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے چونکہ عمل کی اہمیت گھٹتی ہے جو درایت کے خلاف ہے۔ اس بنا پر حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اس روایت کے مسلمہ معلومات دین کے منافی ہونے کی وجہ سے اسے رد کردیا ہے۔ جس سے یہ اصول اخذہوتا ہے کہ ہر وہ روایت جوروایتی طور پر خواہ قطعی الثبوت درجہ ہی کیوں نہ ہو اگر نقد روایت کے درایتی معیار پر پورا نہیں اترتی تو اسے ہر صورت رد کردینا چاہیے، جیسا کہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے عمل سے ثابت ہورہا ہے۔ جواب اعتراض کرنے والے کو یہاں اس بات کی وضاحت کرنی چاہئے تھی کہ اگر کوئی حدیث قرآن کریم کے مطابق ہو لیکن کسی کی رائے اس حدیث کے خلاف ہو تو کیا قرآنی مطابقت کے پیش نظر اسے قبول کیا جائے گا یا کسی کی رائے کی مخالفت کااعتبار کرتے ہوئے اسے ترک کیا جائے گا یا کہ نہیں ؟ اس کا جواب ظاہر ہے کہ جو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے عین مطابق ہو لیکن کسی شخص کی رائے اس حدیث کے خلاف ہو تو رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرلیا جائے گا، کیونکہ اس کی رائے کا تعلق ذاتی رجحان اور ذہنی میلان سے ہے۔ محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ مذکورہ حدیث ان اللّٰہ قد حرم علی النار من قال لا الہ الا اللّٰہ یبتغی بذلک وجہ اللّٰہ اور قرآنی آیت ﴿ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُأَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَائُ....﴾ ۴۹؎ میں کوئی تعارض نہیں ہے،کیونکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنی آیت کا مفہوم ومدعا ایک ہی ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اہل توحید کے دیگر جرائم اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہوں گے، چاہے تو معاف کردے اور چاہے تو ان پر سزا دے کر انہیں جنت میں داخل کردے اور آخر کار ان پر جہنم کی آگ حرام کردے، جبکہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی ذاتی رائے اس کے خلاف جارہی ہے اور محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کا بھی یہی مفہوم ہے تو قرآنی مطابقت کی بنا پر منکرین حدیث کے ہاں بھی یہ حدیث مقبول ہونی چاہئے۔ صرف حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے ظن کی وجہ سے اسے ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔ خاص کر جبکہ حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے راوی حدیث حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے دوربارہ اس کی تحقیق کرکے اس کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔۵۰؎ |