جمع وتطبیق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)نے اگر حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے انکار کی وجہ بیان کی ہے تو ساتھ ہی انہوں نے اصول محدثین رحمہم اللہ کے مطابق ان دونوں میں جمع و تطبیق کی صورت بھی نقل کردی ہے ، وہ فرماتے ہیں : لکن الجمع ممکن بأن یحمل التحریم علی الخلود وقد وافق محموداً علی روایۃ ھذا الحدیث عن عتبان انس بن مالک، کما أخرجہ مسلم من طریقہ وھو متابع قوی جداً ۵۱؎ ’’محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کے اثبات اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے انکار کے درمیان یوں تطبیق دی جاسکتی ہے کہ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ موحد گناہگار اپنے گناہوں کی پاداش میں دوزخ میں جائے گا اور محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا بلکہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد اسے دوزخ سے نکال کر جنت کا داخلہ مل جائے گا اور اب اس پر جہنم کی آگ حرام ہوجائیگی۔ مزید یہ کہ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ سے حدیث کو روایت کرنے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کی موافقت کی ہے اور اِمام مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ھ)نے اپنی سند کے ساتھ اسے نقل کیا ہے اور یہ انتہائی قوی موافقت ہے جس سے محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تائید ہوتی ہے۔‘‘ اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ تقی امینی لکھتے ہیں کہ ’’ اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے چونکہ عمل کی اہمیت گھٹتی ہے ، اس بنا پر ابتدائی مرحلہ میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو اس کے قبول کرنے میں تامل ہوا، لیکن حدیث کا محل متعین ہونے کے بعد تامل کی گنجائش نہیں رہتی۔ وہ یہ کہ لا الہ الا اللہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کے تقاضے پر عمل بھی کیا ہو، جو خالص رضائے الٰہی کے لیے کہنے کا نتیجہ ہے۔‘‘ ۵۲؎ ........٭٭٭........ |