Maktaba Wahhabi

370 - 432
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کمی و بیشی کے ساتھ ایسی بیع کرنے سے حکماً منع کردیا تھا۔ مکمل حدیث بمع اپنے الفاظ کے ملاحظہ ہو: عن مالک عن زید بن أسلم عن عطاء بن یسار أن معاویۃ بن ابی سفیان باع سقایۃ من ذھب أو ورق بأکثر من وزنھا فقال أبوالدرداء: سمعت رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ینھی عن مثل ھذا الامثلاً بمثل فقال لہ معاویۃ ما أری بمثل ھذا بأسا فقال ابوالدرداء: من یعذر من معاویۃ، أنا اخبرہ عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم و یخبرنی عن رأیہٖ لا أساکنک بأرض أنت بھا ثم قدم ابوالدرداء علی عمر بن الخطاب فذکر ذلک لہ فکتب عمر بن الخطاب إلی معاویۃ ان لا تبیع ذلک الإ مثلا بمثل وزنا بوزن ۴۷؎ ’’عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے ایک پانی پینے کا برتن جو سونے یا چاندی کا تھا اس کے وزن سے زیادہ سونا یا چاندی لے کر بیچ دیا۔ تو ابوالدردا رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ ایسی بیع سے منع فرماتے تھے۔ ہاں برابر برابر بیچنا درست کہتے تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا میری رائے میں اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا اگر میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کا بدلہ دوں تو کون ہے جو میرا عذر قبول کرے، میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں ۔ اور وہ مجھ سے اپنی رائے بیان کرتے ہیں ، اب میں ان کے علاقے میں نہیں رہوں گا۔ پھر ابوالدرداء رضی اللہ عنہ مدینہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے یہ واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ آئندہ ایسی بیع نہ کرنا، مگر تول کر برابر برابر ہوتو درست ہے۔‘‘ اختلاف فقہاء یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس حدیث کی روشنی میں فقہاء کے مابین رونماہونے والے فقہی اختلاف کو بھی انتہائی اختصار کے ساتھ ذکر کردیں ۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سونے یا چاندی کا برتن فروخت کرتے وقت عوضانے کے طور پر زیادہ سونا یا چانا وصول کرلیتا ہے تو اس بیع کا کیا حکم ہے؟ اس بیع کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں فقہاء کرام کا اختلاف ہے۔ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م۲۰۴ ھ) کا کہنا ہے کہ وہ شخص برتن کی بنوائی کے عوضانہ کے طور پر سونا یا چاندی وصول کرسکتا ہے اور یہ مثلا بمثل کے مخالف نہیں ، جبکہ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) اور اکثر علماء بنوائی کے بدلے کچھ زائد سونا لینے کو درست نہیں سمجھتے بلکہ اسے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منافی قرار دیتے ہیں ۔ امیر معاویہ کا فقہی موقف اور حدیث کریمہ سے اس کی تطبیق انہوں نے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کو صحیح مانتے ہوئے اپنی بیع کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق قرار دیا ہے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے سونے کا برتن بیچنے والا اپنی بنوائی کے عوض کچھ سونا زیادہ لے تو یہ مثلاً بمثل کے منافی نہیں ہے، کیونکہ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے الفاظ حدیث نہی عن مثل ہذا إلا مثلا بمثل کے جواب میں انہوں نے فرمایا تھا:ما أری بمثل ہذا بأسا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی بیع حدیث میں وارد الفاظ مثلا بمثل کے عین مطابق ہے اور اس کی شکل ممانعت والی بیع سے قطعا مختلف ہے، کیونکہ اختلاف حدیث کے مصداق کے تعین میں ہے، ناکہ نفس حدیث کی قبولیت میں ۔ لہٰذا ’اہل درایت‘ کا یہ کہنا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عقل و قیاس کی بنا پر روایت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ان کی غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ۔ اس لئے کہ حدیث کا انکار کردینا اور حدیث کی روشنی میں اپنے فہم یا فعل پر تصویب کا اظہار کرنا ایک بالکل دوسری شے ہے اور د ونوں باتوں میں بعد المشرقین ہے۔
Flag Counter