نوٹ: واضح رہے کہ اِستدراک عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے مذکورہ مثال کو درایتی نقد کے تصور کے اثبات میں پیش کرنے والوں کے خلاف یہ دلیل خود حجت ہے، کیونکہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا اِستدراک اگر درایتی نقد ہی سے متعلق ہے تو خود روایت عمر رضی اللہ عنہ درایتی معیار پر پورا نہیں اترتی۔ دیکھیں کہ اس حدیث میں قبول خبر کے سلسلہ میں مرد وزن کے فرق کا لحاظ کیا جارہا ہے، جوکہ ان لوگوں کے ہاں شرعا، عقلا ونقلا ہر اعتبار سے غلط ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اِستدراک عمر رضی اللہ عنہ کی نوعیت درایتی نقد کے بجائے روایتی نقد کے اثبات کی قوی دلیل ہے، کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر ان کے حافظہ پر عدم اعتماد کی وجہ سے اعتراض کررہے ہیں اور حافظہ کی بنیاد پر کسی حدیث کے ردو قبول کا تعلق تحقیق سند کے ساتھ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق عورتیں چونکہ زیادہ تر گھریلو زندگی میں مصروف رہتی ہیں اس لیے احکام شریعت سے متعلق امور میں ان کی فہم وفراست اور حافظہ ویاداشت عدم استعمال کی وجہ سے مردوں کے بہ نسبت کچھ محدود ہوجاتی ہے۔ اس لیے اہم امور دین میں ان کی وہ روایات جو صریح ارشادات شریعت کے منافی ہوں انہیں احتیاط کی نظر سے دیکھتے ہوئے قبول کرنا چاہیے۔ 3۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مؤطا اِمام مالک میں روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سونے یا چاندی کے کچھ برتن فروخت کئے اور بدلے میں ان کے وزن سے زیادہ سونا یا چاندی وصول کی جب حضرت ابوالدردا رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ اس بیع سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے تو جواب دیا کہ میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا۔ ‘‘ ۴۶؎ اعتراض ’اہل درایت‘ نے مذکورہ بالا واقعہ سے اپنے اصول درایت کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے غلط استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جب ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے ایک جنس میں کمی وبیشی کی ممانعت پر مبنی حدیث بیان فرمائی تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر اس انکار کردیا کہ میں ایسی بیع میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا ہوں ، جس میں ایک ہی جنس کی اشیاء میں کمی وبیشی کی گئی ہو۔ گویا انہوں نے عقل و قیاس کی بنا پر روایت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جواب یہ رویہ علمی دنیا میں انتہائی غیر مناسب ہے کہ استدلال کرنے والا کسی واقعہ یا روایت میں سے اپنے مطلب کا حصہ نکال کر اس روایت کو سیاق وسباق سے کاٹ کر بیان کر دے تاکہ اپنے فکر خاص کو خلعت جواز پہنائی جاسکے۔ یہ روایت اس آیت کریمہ کا مصداق بھی ہے: ﴿یُحَرِّفُونَ الکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِہ﴾ اور کتمان علمی کی وعید بھی اس پر صادق آتی ہے۔ لہٰذا مناسب خیال کرتے ہیں کہ اس حدیث کا مکمل متن نقل کریں تاکہ اس سے نتائج واقعہ اور حقائق بیان میں آسانی ہو۔ واقعہ کا سیاق وسباق اگر اس حدیث کو اس کے سیاق و سباق سے کاٹے بغیر مکمل دیکھ لیا جائے، جیسے یہ اصل کتاب میں ذکر ہوئی ہے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس حدیث کو درایتی نقد کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا ، کیونکہ اسی حدیث میں ہی اس کا جواب بھی موجود ہے۔ چنانچہ امیرالمؤمنین حضرت |