Maktaba Wahhabi

368 - 432
جواب یہ دعوی کہ حدیث فاطمہ رضی اللہ عنہا ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے، صحیح نہیں ہے، کیونکہ کوئی ایسی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جس کے یہ حدیث خلاف ہو۔ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) فرماتے ہیں : ’’ ونحن نقول: قد أعاذ اللّٰہ أمیرالمؤمنین من ھذا الکلام الباطل الذی لا یصح عنہ أبدا قال الإمام أحمد لا یصح ذلک عن عمر ۴۳؎ ’’ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کواس باطل کلام سے بچائے جو ان سے ہرگز صحیح ثابت نہیں ہوکتی۔ اِمام احمد رحمہ اللہ (م ۲۴۱ ھ) نے بھی کہا ہے کہ یہ کلام حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔‘‘ اور جو روایت حماد(م ۱۲۰ ھ) عن ابراہیم (م ۹۶ ھ)عن عمر کے واسطے سے مرفوع بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی مطلقہ کے لئے نان و نفقہ رکھا ہے، اس روایت کو غلط قرار دیتے ہوئے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ)فرماتے ہیں : فنحن نشہد باللّٰہ شہادۃ نسأل عنہا إذا لقیناہ أن ھذا کذب علی عمر رضی اللّٰہ عنہ وکذب علی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم وینبغی ان لایحمل الإنسان فرط الانتصار للمذاھب والتعصب لہا علی معارضۃ سنن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم الصحیحۃ الصریحۃ بالکذب البحت۴۴؎ ’’ہم اللہ سے ڈر کر گواہی دیتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت پوچھا جائے گاکہ یہ روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ پربلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے۔ اپنے مذہب کی تائید اور تعصب کی بنا پر کسی انسان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ ایسی جھوٹی روایت کو صحیح ثابت احادیث کے مقابلہ میں پیش کرے۔‘‘ اس روایت کے موضوع اور خود ساختہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے راوی ابراہیم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سماع ہی ناممکن اور محال ہے، کیونکہ ان کی پیدائش ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات سے کئی سال بعد جاکر ہوئی ہے۔ اسی طرح حدیث فاطمہ رضی اللہ عنہا جو مبتوتہ سے متعلق ہے قرآن کریم کی آیت کے خلاف نہیں جو مطلقہ رجعیہ کے بارے میں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی سنت ثابتہ ہے جسے اس حدیث کو معارض قرا ر دے کر رد کیا جاسکے۔ خلاصہ بحث محقق علماء کی صراحت کے مطابق حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا اپنے موقف میں حق پر ہیں کہ مطلقہ تلاثہ کے لئے نفقہ اور سکنی نہیں ہے اور نسیان یا خطا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا ہے، جیساکہ پانی کی عدم موجودگی میں جنبی کے لئے تیمم کے جواز میں ان سے نسیان ہوگیا تھا۔ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ)نے اس پر طویل اور نفیس بحث کی ہے، چنانچہ وہ اِمام دارقطنی رحمہ اللہ (م ۳۸۵ ھ) کے حوالہ سے فرماتے ہیں : وقال ابوالحسن الدارقطنی بل السنۃ بید فاطمۃ بنت قیس قطعا ومن لہ إلمام بسنۃ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم یشھد شھادۃ اللّٰہ أنہ لم یکن عند عمر رضی اللّٰہ عنہ سنۃ عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم أن للمطلقۃ ثلاثا السکنی والنفقۃ ۴۵؎ ’’ اِمام دارقطنی رحمہ اللہ (م۳۸۵ ھ) نے فرمایاہے: سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس مسئلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بجائے یقینا حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت قیس کی تائید کرتی ہے اور جس شخص کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شغف ہے وہ اللہ کے لئے ضرور اس بات کی گواہی دے گا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پا س کوئی ایسی سنت نہیں تھی جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ مطلقہ ثلاثہ کے لئے مرد کے ذمے نفقہ ، سکنی ہے۔‘‘
Flag Counter