Maktaba Wahhabi

367 - 432
ذکر کردیا جائے تاکہ معلوم ہو کہ کیا مذکورہ حدیث واقعۃً قرآن کریم کے خلاف ہے؟ وہ آیت سورۃ الطلاق میں حسب ذیل الفاظ سے وارد ہے: ﴿یٰااَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقّْتُمُ النِّسَائَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّ تِھِنَّ وَاحْصُوا الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوااللّٰہَ رَبَّکُمْ لاَ تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُوتِھِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ اِلاَّ اَنْ یَّأْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ وَتِلْکَ حُدُوْدِ اللّٰہِ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ لاَ تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَامْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْفَارِ قُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّ اَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِنْکُمْ وَاَقُیْمُو الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ....﴾ ۴۲؎ ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی امت سے کہو کہ جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت کے دنوں میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ، جو شخص اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے، اس نے اپنی جان پر ظلم کیا، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی صورت پیدا کردے، پھرجب یہ عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں یا تو قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رہنے دو، یا دستور کے مطابق انہیں چھوڑ دو اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کرلو اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے ٹھیک ٹھیک گواہی دو۔‘‘ جمع وتطبیق بظاہریوں محسوس ہوتا ہے کہ آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ میں تعارض ہے لیکن جب ہم تمام شواہد حدیث اکٹھا کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کے چانس اور مواقع ایک مرد کے پاس تین ہیں ۔ پہلی دو طلاقوں کے بعد اس کو رجوع کا حق حاصل ہے، جبکہ تیسری طلاق میں حق رجوع باقی نہیں رہتا۔ مزید برآں طلاق رجعی اور طلاق بائنہ میں نفقہ اور سکنی کے احکامات میں بھی فرق ہے، یعنی رجعی طلاق میں سکنی ونفقہ ہے جبکہ طلاق بائن میں نہیں ۔ المختصر یہ آیت مطلقہ رجعیہ کے بارے میں ہے جس کے لئے خاوند کے ذمہ نفقہ و سکنی لازم ہوتا ہے کیونکہ اس آیت میں ﴿لاَتُخْرِجُوْھُنَّ مِنْ بُیُوْتِھِنَّ ﴾ انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور یہ بھی فرمایا کہ ’’جب وہ اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رکھو۔ نیز فرمایا: ﴿ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا﴾ ’’شایدکہ اللہ تعالیٰ طلاق کے بعد آپس میں رجوع کرنے کی صورت پیدا فرما دے‘‘ ۔ ان تمام تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مطلقہ رجعیہ کے بارے میں ہے جس سے طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع ہوسکتا ہے اور اس کے لئے خاوند کے ذمہ نان و نفقہ لازم ہوتا ہے، جبکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث مطلقہ ثلاثہ سے متعلق ہے جوخاوند کی زوجیت سے نکل جاتی ہے اور اس کے لئے مرد کے ذمہ کوئی نفقہ ، سکنی نہیں ہوتا۔ چنانچہ حدیث فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کتاب اللہ کے خلاف سمجھنا غلط فہمی پر مبنی ہے۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت مشہورہ میں اختلاف اس سلسلہ میں ایک روایت بھی بیان کی جاتی ہے ، جسے ابراہیم رحمہ اللہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے۔ اس روایت کی رو سے ایسی مطلقہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکنی ونفقہ دیا ہے جسے اس کا خاوند طلاق بائن دے چکا ہو۔ معترضین کا خیال ہے کہ اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث فاطمہ رضی اللہ عنہا اس سنت رسول کے خلاف ہے۔
Flag Counter