Maktaba Wahhabi

366 - 432
میں سے نہیں ہے، کیونکہ اگر اس کا گوشت کھانا مباح اور حلال ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس پر سواری اور اس کی زینت کے ساتھ اسے کھانے کو بھی بطور احسان ذکر فرماتے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوا، لہٰذا اِمام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک گھوڑا غیر ماکول اللحم جانور ہے۔ قرآنی آیت اور حدیث نبوی میں تطبیق گھوڑے کے ساتھ اس سابقہ آیت میں گدھوں اور خچروں کا ذکر بھی ہے۔ بنابریں جب سورۃ نحل کی آیت کریمہ کے پیش نظر اِمام صاحب کے نزدیک گھوڑا حلال نہ ہوا تو گدھے اور خچر کا گوشت بھی حلال نہیں ہوگا، جن پر آیت مشتمل ہے اور گدھوں کے گوشت کی ممانعت پر مشتمل حدیث مبارک بھی قرآن کریم کے خلاف نہیں بلکہ اس کے موافق ہوگی۔ خلاصہ کلام ہماری مذکورہ بالا طویل بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گدھوں کی حرمت کا مسئلہ کوئی ایسا مختلف فیہ مسئلہ نہیں ہے جس کے بارے میں امت میں دو رائے پائی جاتی ہوں یا جو قرآن کے خلاف ہو، بلکہ یہ ایک متفقہ مسئلہ ہے جس پر امت معصومہ کا اجماع ہے اور جو متجددین قرآن وحدیث کے باہمی تعارض کو باور کروانے کے لیے علمائے احناف پر تکیہ کرتے ہیں ، انہیں آنکھیں کھول کر ان اجتہادات پر بھی نگاہ ڈال لینی چاہیے جن میں خود از روئے قرآن گدھے کی حرمت ثابت ہورہی ہے۔ بنا بریں تعارض قرآن وحدیث کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔ 2۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سنن ابی داؤد میں روایت ہے کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے یہ روایت بیان کی کہ ان کے خاوند نے انہیں تین طلاقیں دے دی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ عدت کے دوران میں ان کا نفقہ خاوند کے ذمہ نہیں ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا: ما لنا لندع کتاب ربنا و سنۃ نبینا لقول امرأۃ لاندری أحفظت أم لا ۴۱؎ ’’ہم کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ایک عورت کی بات پرنہیں چھوڑ سکتے جس کو پتہ نہیں بات یاد بھی رہی ہے یا نہیں ۔‘‘ اعتراض فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث پرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اِستدراک اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جب انہیں ان کی بیان کردہ روایت قرآن کریم کی آیت کے مخالف معلوم ہوئی تو انہوں نے بغیر کسی لیت ولعل کے اس کا انکار صرف اس بنا پر کردیا تھا کہ یہ قرآن کریم کے خلاف ہے اور اپنے اس موقف کی تائید میں انہوں نے دوسرے کسی ثبوت کا سہارا بھی نہیں لیا تھا اور راوی حدیث کو مؤنث قرار دینا ایک اتفاقی سی بات تھی، ورنہ یہ بات اگر کوئی مذکر راوی بیان کرتا تو عمر رضی اللہ عنہ اس پر بھی رد یا انکار فرما دیتے، کیونکہ یہ روایت اپنے نفس مضمون کے اعتبار سے آیت قرآنی کے صریحا خلاف ہے۔ حدیث میں عدت کے دوران نفقہ وسکنی کی ذمہ داری خاوند پر عائد ہونے کی نفی ہے جبکہ قرآن کریم کی آیت میں نفقہ وسکنی کا اثبات ہے۔ جواب فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ حدیث کو جس آیت قرآنی کے خلاف سمجھا گیا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کریمہ کو
Flag Counter