ظاہر ہے کہ اصل مسئلہ حدیث کے خلاف قرآن یا خلاف عقل ہونے کا نہیں بلکہ ان حضرات کی اصل مجبوری اپنے خود ساختہ اصول کو حیات صحابہ رضی اللہ عنہم سے سند جواز فراہم کرتے ہوئے، حدیث نبوی کی قبولیت کے بارے میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے مقرر کردہ جامع اصول حدیث کو مشکوک قرار دے کر ذخیرہ حدیث کا انکار کرنا مقصود ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا قول ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعہ کے جواز میں بھی منقول ہے۔ اس کے لیے بھی یہ لوگ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آیت قرآنی کے خلاف ہونے سے استدلال کرتے ہیں ۔ کیا ان کا یہ استدلال بھی بغیر کسی فکروتدبر کے تسلیم کرلیا جائے؟ حالانکہ قرآن کریم میں آج بھی وہ آیت موجود ہے تو کیا آج بھی اسی اصول کی بنیاد پرمتعہ کے جواز کا فتوی صادر کردیاجائے۔ معترضین اس سلسلہ میں کیا عرض کریں گے کہ یہ حدیث بھی تو بظاہر قرآن کریم کے خلاف جارہی ہے، حالانکہ امت میں متعہ کے جواز کا قائل اہل تشیع کے علاوہ کوئی بھی نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی لاعلمی اور رجوع متعۃ النسا ء کی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ گھریلو گدھوں کے گوشت کی اباحت کے اس وقت قائل تھے جبکہ انہیں اس کی نہی اور ممانعت نہیں پہنچی تھی اور اس وقت وہ سورۃ انعام کی سابقہ آیت اس کی اباحت پرپڑھا کرتے تھے، گھریلو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کی حدیث علم میں آنے پر وہ اس کی تحریم کے قائل ہوگئے تھے، جیسا اِمام نووی (م ۶۷۶ ھ)فرماتے ہیں : فقد روی عن ابن عباس وعائشۃ و بعض السلف اباحتہ روی عنہم تحریمہ ۳۸؎ ’’ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا اور بعض اسلاف سے گھریلو گدھوں کے گوشت کی اباحت نقل کی گئی ہے تو ان سے اس کی تحریم بھی منقول ہے۔‘‘ معترضین نے بعض علمائے احناف کو بنیاد بناکر دعوی کیا ہے کہ مذکورہ حدیث خلاف قرآن ہے، لیکن خود فقہ حنفی کی بعض مصنفات میں ان احادیث کے موافق قرآن ہونے کا اشارہ بھی ملتا ہے۔مذکورہ حدیث میں گھریلو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کو خلاف قرآن ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ وہ قرآن کریم کے موافق اور اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ)کے استدلال کے عین مطابق ہے، کیونکہ اِمام صاحب رحمہ اللہ جس آیت کریمہ سے گھوڑوں کے گوشت کے ممانعت پر استدلال کرتے ہیں اس میں گدھوں کا ذکر بھی موجود ہے۔ ابن ہمام رحمہ اللہ (م ۸۶۱ ھ) لحم خیلکی کراہت پراِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) کی دلیل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ولأبی حنیفۃ قولہ تعالیٰ ﴿ وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْھَا وَزِیْنَۃً﴾ ۳۹؎ خرج مخرج الامتنان ، والأ کل من أعلیٰ منا فعہا والحکیم لا یترک الامتنان بأعلی النعم ویمتن بأدناھا ۴۰؎ ’’گھوڑوں کے گوشت کی ممانعت پر اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے کہ گھوڑوں ، خچروں اور گدھوں کو تمہاری سواری اور زینت کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا احسان جتلایاہے، اگر گھوڑے کا گوشت کھانا جائز ہوتا تو کھانے کا فائدہ تو گھوڑے کے باقی تمام فوائد سے بڑھ کر ہے اسے اس آیت میں ذکر کیا جاتا، کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ جیسا حکیم کھانے کی اعلیٰ نعمت کو چھوڑ کر اس کے ادنیٰ فائدوں کے ساتھ احسان جتلائے۔‘‘ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ)کا استدلال مذکورہ آیت سے اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ)کا وجہ استدلال یہ ہے کہ اِمام صاحب کے نزدیک گھوڑا ماکول اللحم جانوروں |