کریں اور خود مفسر قرآن ہوتے ہوئے بھی دین کے اس عمومی مزاج کو نہ سمجھ سکیں کہ حدیث نبوی کے قبول ورد کی بنیاد عقل انسانی قطعا نہیں بن سکتی۔ یہ بات خود عقل عام کے خلاف ہے اور جب معاملہ اس قدر حساس ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قول ِابن عباس رضی اللہ عنہ کی نامعقول انداز مین توجیہ کرنا مناسب نہیں ۔ خلاصہ کلام مندرجہ بالا تصریحات کی روشنی میں ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو کے واجب ہونے کی روایت منسوخ ہوچکی ہے اور اس کے منسوخ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ احکام اسلامیہ میں سے کوئی ایسا حکم نہیں ہے جس پر اب عمل پیرا ہوا جاسکے کیونکہ یہ ایک ناقابل عمل روایت قرار پا چکی ہے۔ لہٰذا ایسی منسوخ حدیث کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد کریں یا عقل کے، کسی مسلمان کے عقیدہ وعمل پر اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ کوئی اثر، کیونکہ اب وہ حکم اسلامی حکم رہا ہی نہیں اور جب وہ اسلامی حکم نہیں رہا تو اس کا بوجوہ انکار کریں یا بلاوجہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ بنابریں ہم علی وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت حدیث خلاف قرآن و سنت نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اسے عقل کے خلاف کہہ کر رد کیا جاسکتا ہے، ہاں ضعیف روایت جو غیر ثابت ہو یا منسوخ ہو اسے خلاف سنت کہیں یا خلاف عقل کوئی حرج نہیں کیونکہ نسخ کے بعد وہ لائق عمل نہیں ہوتی۔ 2۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ عمرو (م ۱۲۶ ھ)نے جابر بن زید رضی اللہ عنہ (م ۹۳ ھ)سے پوچھاکہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے، انہوں نے کہا حکم بن عمرو الغفاری رضی اللہ عنہ (م ۴۵ ھ) تو یہی بات کہتے تھے لیکن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور قرآن کی یہ آیت پڑھتے تھے: ﴿قُلْ لاَّ أَجِدُ فِیْ مَا اُوْحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا﴾ یعنی’’کہہ دو کہ مجھ پر جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں ان چار چیزوں یعنی مردار، خون، خنزیر کے گوشت یا غیر اللہ کے نام پر منت مانے ہوئے جانور کے سوا میں کوئی چیز حرام نہیں پاتا۔‘‘ ۳۷؎ اعتراض مذکورہ واقعہ سے ایک مشہور درایتی نقد کے اصول یعنی ’جو روایت قرآن کے عمومات کے خلاف ہو اسے رد کردینا چاہیے‘ کا اثبات کیا جاتاہے، کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے قرآنی آیت ﴿قُلْ لاَّ أَجِدُ فِیْ مَا اُوْحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّمًا﴾ کی بنا پر حکم بن عمرو رضی اللہ عنہ کی روایت کا انکارکیا ہے۔ جواب جو حضرات ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کو ’درایت‘ کے حق میں استعمال کررہے ہیں اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عقل یا خلاف قرآن ہونے پر اِستدراک صحابی کو سند کے طور پر پیش کرتے ہیں ، ہم ان سے سوال کرنا چاہیں گے کہ اگر عہد صحابہ میں تحریم حمار کی حدیث کوابن عباس رضی اللہ عنہ نے خلاف قرآن کہہ کر رد کردیا تھا تو کیا آج گدھا کھایا جاسکتا ہے ؟ کیونکہ جس طرح حرمت حمار کی حدیث کل خلاف قرآن تھی وہ آج بھی خلاف قرآن ہے اور جس آیت قرآنی کی بنیاد پر گدھے کی حلت پر استدلال کیا جاتا تھا، قرآن میں آج بھی وہ آیت موجود ہے اور منسوخ نہیں ہوئی۔ اگر آج کے دور میں یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا اور واقعۃً نہیں کیا جاسکتا تو اس کا مطلب صاف |