’’اجتہاداور قیاس ضرورت کے وقت ہوگا۔اور یہی بات ہر مسلما ن پر واجب ہے کیونکہ رائے کا اجتہاد مضطرب کے لیے مباح ہے جیسا کہ اس کے لیے ضرورت کے وقت مردار اور خون مباح ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :پس جو بھی مجبور کر دیا گیا اس حال میں کہ وہ نہ تو زیادتی کرنے والاہو اور نہ ہی حد سے بڑھنے والا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے،بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔اسی طرح قیا س بھی ضرورت کے وقت ہو گا۔ اِمام احمد رحمہ اللہ (م ۲۴۱ھ)کہتے ہیں کہ میں نے اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)سے قیاس کے بارے میں سوال کیا: تو انہوں نے جواب دیا:ضرورت کے وقت ہو گا۔اس اثر کو اِمام بیہقی رحمہ اللہ (م ۴۵۸ھ)نے ’مدخل‘ میں بیان کیا ہے ۔‘‘ ٭ اسی موقف کو اِمام ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ) نے بھی بیان کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں : القیاس مشروع عند الضرورۃ لا أنہ أصل برأسہ۶۰؎ ’’قیاس تو صرف ضرورت کے وقت ہوتا ہے نہ کہ یہ بذاتہ کوئی اصل ہے۔‘‘ ٭ علامہ ابن سمعانی رحمہ اللہ (م ۴۷۹ھ)فرماتے ہیں : متی ثبت الخبر صار اصلا من الأصول و لا یحتاج إلی عرضہ علی أصل آخر لأنہ إن وافقہ فذاک و إن خالفہ لم یجز رد أحدھما لأنہ رد للخبر بالقیا س و ھو مردود بالاتفاق فان السنۃ مقدمۃ علی القیاس بلا خلاف۶۱؎ ’’جب خبر ثابت ہو جائے تو وہ اصول شرعیہ میں سے ایک اصل بن جاتی ہے اور اس کو کسی دوسری اصل پر پیش کرنے کی احتیاج نہیں ہوتی کیونکہ اگر تو وہ اس کے موافق ہو تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ اس کے مخالف ہو توان میں سے کسی ایک کو بھی رد کرنا جائز نہیں ہوتا اس لیے کہ یہ خبر کا قیاس کے ذریعے رد شمار ہو گا اور ایسا رد بالاتفاق مردود ہے کیونکہ سنت ہر حال میں قیا س پر مقدم ہوتی ہے۔‘‘ محدثین کرام رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ قیاس اگرصحیح ہو تو وہ کسی طور پر بھی صحیح خبر سے معارض نہیں ہوتا۔بلکہ جتنی بھی ایسی اخبارصحیحہ کہ جن کے بارے میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ وہ قیاس کے خلاف ہیں ، علماء نے ان کو قیاس کے مطابق ثابت کیا ہے مثلاحدیث مصراۃ و غیرہ۔ ٭ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م ۱۱۷۶ھ)لکھتے ہیں : أن جماعۃ من الفقھاء زعموا أنہ یجوز رد حدیث یخالف القیاس من کل وجہ فتطرق الخلل الی کثیر من الأحادیث الصحیحۃ کحدیث مصراۃ و حدیث القلتین فلم یجد أھل الحدیث سبیلا فی الزامھم الحجۃ إلا أن یبینوا انھا توافق المصالح المعتبرۃ فی الشرع۶۲؎ ’’فقہاء رحمہم اللہ کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ ایسی حدیث کو رد کرنا جائز ہے جو کہ قیاس کے مخالف ہو۔اس وجہ سے بہت سی صحیح احادیث شکوک و شبہات کی نظر ہو گئیں مثلا حدیث مصراۃ اور حدیث قلتین۔اس صورت حال میں محدثین رحمہم اللہ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ان فقہاء کرام رحمہم اللہ پر حجت قائم کریں اور یہ واضح کریں کہ اس قسم کی روایات شریعت کی مصالح معتبرۃ کے موافق ہیں ۔‘‘ اس کے علاوہ یہ بات بھی درست ہے کہ قیاس میں شبہ حدیث کی نسبت زیادہ ہوتا ہے ۔کیونکہ حدیث میں اصل شبہ اس کی نقل ِ روایت میں ہے اورجب ثابت ہو جائے کہ نقل روایت میں عدالت، ضبط، اتصال سند، علت کا ہونا اور عدم شذوذ موجود ہے تو یہ شبہ رفع ہو جاتا ہے۔لیکن قیاس میں شبہ اس کے ارکان میں موجود ہے ۔مثلا ایک مجتہد نے جو علت نکالی ہے کیا واقعتا وہی علت شارع کے بھی پیش نظر تھی یا نہیں ۔اسی طرح مقیس میں وہ علت پائی جاتی ہے یا نہیں ، اس میں بھی غلطی کا امکان موجود ہے ۔ عام طور پر یہ جو معروف ہو گیا ہے کہ احناف کا یہ مسلک ہے کہ وہ خبر کے مقابلے قیا س کو ترجیح دیتے ہیں ، صحیح نہیں ہے ۔یہ متاخرین |