Maktaba Wahhabi

337 - 432
ہو یا نقلی ، بہر حال ایک ایسی خبر کے مقابلے میں اپنے اندر زیادہ اطمینان کا پہلو رکھتی ہے جس کی رسول کی طرف نسبت مشکوک ہے۔ اتباع رسول کے پہلو سے بھی مشکوک خبر کے مقابل میں دلیل کی راہ زیادہ مامون ہے۔یہ گمان سحیح نہیں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی بات اگرچہ اس کی نسبت مشکوک بھی ہوعقلی فیصلوں سے زیادہ قابل اطمینان ہے۔غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ اجتہاد کی غلطی میں مبتلا ہونا جھوٹ میں پڑنے سے بہر حال زیادہ اہون ہے۔اجتہاد کی غلطی کی اصلاح ہو سکتی ہے، لیکن اگر اللہ کے رسول کی طرف کوئی غلط طور پر منسوب بات مذہب بن گئی تو اس کے فتنے بہت دور تک پہنچیں گے او ر ان کی اصلاح کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا ۔‘‘۵۶؎ تبصرہ اِصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ھ)کے نزدیک دلیل قطعی کی دو قسمیں کی ہیں : 1۔ ایک عقلی ہے، جس سے ان کی مراد قیاس واجتہاد ہے ۔ 2۔ دوسری نقلی کہ جس سے ان کی مرادقرآن کی وہ تفسیر ہے جو کہ قطعی ذرائع(یعنی نظم قرآن ‘ محاورہ عرب وغیرہ) سے حاصل ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث نصوص قطعیہ کا درجہ رکھتی ہیں ۔لہٰذا ان کے مقابلے میں کیا جانے والا ہر قیاس مردود اور فاسد ہے۔ قیاس کے بارے میں صحیح موقف جو ائمہ محدثین رحمہم اللہ ، مثلا اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)، اِمام احمد رحمہ اللہ (م۲۴۱ھ)اور اِمام مالک رحمہ اللہ (م۱۷۹ھ) و غیرہ نے پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ قیا س ضرورت کے وقت مشروع ہے اور اگر خبر موجود ہو تو قیا س بالکل بھی جائز نہیں ہے۔ ٭ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)لکھتے ہیں : لا یحل القیاس و الخبر موجود کما یکون التیمم طھارۃ عند الاعواز من الماء و لا یکون طھارۃ اذا وجد الماء إنما یکون طھارۃ فی الاعواز۵۷؎ ’’خبر کی موجودگی میں قیا س بالکل بھی جائز نہیں ہے۔جیسا کہ تیمم اس وقت طہارت کا فائدہ دیتا ہے جبکہ پانی موجود نہ ہو ۔لیکن اگر پانی موجود ہو توتیمم ے طہارت حاصل نہ ہو گی۔ ‘‘ یہی قول اِمام احمد رحمہ اللہ (م ۲۴۱ھ)کا بھی ہے ۔ ٭ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ھ) لکھتے ہیں : فإذا لم یکن عند الإمام أحمد فی المسألۃ نص و لا قول الصحابۃ أو واحد منھم و لا أثر مرسل أو ضعیف عدل إلی الأصل الخامس و ھو القیاس فاستعملہ للضرورۃ۵۸؎ ’’پس جب اِمام احمد رحمہ اللہ (م ۲۴۱ھ)کے پاس کسی مسئلے میں نص یا صحابہ رضی اللہ عنہم کا قول یا کوئی مرسل روایت یا ضعیف خبر نہیں ہوتی تو وہ (کسی مسئلے کے حل کے لیے)اپنے پانچویں اصول کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور وہ قیاس ہے پس وہ قیاس کو ضرورتاًاستعمال کرتے ہیں ۔‘‘ ٭ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ھ)کا اپنا بھی یہی موقف ہے ، وہ لکھتے ہیں : یصار إلی الإجتھاد و إلی القیاس عند الضرورۃ۔ وھذا ھو الواجب علی کل مسلم اذ اجتھاد الرأی إنما یباح للمضطر کما تباح لہ المیتۃ و الدم عند الضرورۃ ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لاَ عَادٍ فَلاَ إِثْمَ عَلَیْہِ إِنَّ اللّٰہ غَفُوْرٌ رَّحِیْم﴾ وکذلک القیاس إنما یصار إلیہ عند الضرورۃ۔ قال الإمام أحمد: سألت الشافعی عن القیاس فقال: عند الضرورۃ ذکرہ البیھقی فی مدخلہ ۔۵۹؎
Flag Counter