ہے۔اس نے مشرکین عرب کے سامنے بھی انہیں قول فیصل کے طور پر پیش کیا ہے اور یہود و نصاری کے سامنے بھی۔ان کے مخالفین کو وہ ہوائے نفس کا پیرو قرار دیتا ہے ۔وجدان کے حقائق ، تاریخ کی صداقتیں ، تجربے اور مشاہدے کے ثمرات و نتائج ، یہ سب قرآن میں اسی حیثیت سے زیر بحث آئے ہیں ۔لہذا وہ چیزیں جنہیں خود قرآن نے حق و باطل میں امتیاز کے لیے معیار ٹھہرایا ہے، ان کے خلاف کوئی خبر واحد آخر کسی طرح قابل قبول ہو سکتی ہے؟بالبداہت واضح ہے کہ ہم اسے ہر حال میں رد ہی کریں گے۔‘‘۵۴؎ تبصرہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض سلف صالحین مثلا خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ھ)،علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ھ)اور علامہ سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ھ)وغیرہ نے اپنی بعض تحریروں میں موضوع روایت کی پہچان اور علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی ہے کہ وہ عقل صریح کے خلاف ہو، لیکن ان سلف صالحین کے ہاں خبر واحد کا عقل صریح کے خلاف ہونا موضوع حدیث کی علامت تو ہے، لیکن علت یا سبب نہیں ہے ۔علت اور علامت میں فرق کے حوالے سے ہم اسی فصل میں پیچھے بھی بحث کر آئے ہیں ، جبکہ دوسرے باب کی دوسری فصل اور چھٹے باب کی دوسری فصل میں بھی اس تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ ٭ اس بارے میں مولانا غازی عزیر صاحب حفظہ اللہ نے بھی بہت اچھی بحث کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں : ’’لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو بات آج کسی فرد واحد کی عقل سے مدرک نہ ہو وہ دوسرے افراد کی عقول یا خود اسی فرد کے لیے کچھ زمانہ گزرنے کے بعد یا مزید غور و خوض کے بعد بھی غیر مدرک عقل ہی رہے ۔غیر مدرک عقل امر کی ایک مثال سریر سلیمانی کا بر دوش ہوا اڑنا ہے۔ اگرچہ یہ عمل خلاف ِ عادت ہے مگر خلاف ِعقل ہر گز نہیں ہے۔عام طور پر اس معاملے میں استبعاد ِعقل صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ ا نسان اپنی محدود طاقت و قدرت کو اللہ عز وجل کی لا محدود طاقت و قدرت کے ہم پلہ سمجھ لیتا ہے ....اسی طرح یہ سوال بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ پہلی صدی ہجری کی عقل کو معیار سمجھا جائے گا یا چودھویں صدی ہجری کی عقل کو؟اگر جواب یہ دیا جائے کہ پہلی صدی ہجری کی عقل کو ، کہ اس دور کے لوگ عہد رسالت سے قریب تر تھے اور دین کا فہم ہم سے بہتر رکھتے تھے تو ہم یہ کہیں گے فلسفہ جدید و قدیم کا مطالعہ تو اس کے برخلاف یہ بتاتا ہے کہ ہر صدی کے محققین و عقلاء نے اپنی سابقہ صدیوں کے اصول و نظریات کو نہ صرف فرسودہ قرار دیا بلکہ فرسودہ ثابت بھی کر دکھایا ہے ۔میڈیکل سائنس اور علم نفسیات کی روشنی میں بھی انسانی ذہن روز افزوں ترقیاتی منال طے کرتا جا رہا ہے ، پس ممکن ہے کہ جو چیز پہلی صدی ہجری کی عقول تک رسائی نہ پاسکی ہو وہ چودھویں یا پندرہویں صدی ہجری میں قابل فہم یا قابل ادراک ہو جائے۔لہذا یہ متعین کرنا بے حد مشکل ہے کہ کس صدی کی عقل کو اصل معیار سمجھا جائے گا؟‘‘۵۵؎ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب کوئی حدیث محدثین رحمہم اللہ کے اصولوں کے مطابق صحیح ثابت ہو جائے تو کبھی عقل ِ صحیح کے خلاف نہیں ہوتی۔علماء نے ایسی تمام روایات کہ جن کے بارے میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ عقل کے خلا ف ہیں ، مطابق ِعقل ثابت کیا ہے اور اس موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں ۔اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م ۷۲۸ھ)کی کتاب درء تعارض العقل و النقل،اس موضوع پر ایک وقیع اور علمی کتاب ہے۔ 6۔چھٹا اصول ٭ اصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ھ)لکھتے ہیں : ’’حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لیے چھٹی اور آخری کسوٹی دلیل قطعی ہے جیسا کہ ابھی اوپر گزر چکا ہے ، خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م۴۶۳ھ) بھی اس اصول کو مانتے اور پیش کرتے ہیں کہ دلیل قطعی کے منافی خبر واحد قبول نہیں کی جائے گی۔دلیل خواہ عقلی |