Maktaba Wahhabi

335 - 432
العمل ولم یقل قط فی مؤطاہ ولا غیرہ لا یجوز العمل بغیرہ بل یخبر اخبارا مجردا أن ھذا عمل أھل بلدہ فإنہ رضی اللّٰہ عنہ و جزاہ عن الإسلام خیرا ادعی اجماع أھل المدینۃ فی نیف وأربعین سنۃ۵۱؎ ’’اور یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ عمل اہل مدینہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) کے نزدیک تمام امت کے لیے حجت نہیں تھا بلکہ اِمام صاحب رحمہ اللہ نے اپنے ذاتی عمل کے لیے اس کو اختیار کیااور مؤطا یا اس کے علاوہ کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ اس کے بغیر عمل جائز نہیں ہے بلکہ اِمام صاحب رحمہ اللہ صرف یہ لکھتے ہیں کہ ان کے شہر والوں کا عمل یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اِمام صاحب رحمہ اللہ پر رحم کرے کہ انہوں نے چالیس سے زائد مسائل میں اہل مدینہ کے اجماع کا دعوی کیاہے ۔‘‘ جہاں تک متاخرین مالکیہ کا یہ کہناہے کہ اہل مدینہ کا عمل صحیح حدیث کے مقابلے میں راجح اور معتبر ہے تو ان کایہ اصول درست نہیں ہے۔واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بہت سے ایسے صحابہ رضی اللہ عنہم جو کہ مدینہ میں رہتے تھے ،تبلیغ و اشاعت دین کی غرض سے دوسرے شہروں میں منتقل ہو گئے۔اِمام ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ھ)کے بقول تقریبا تین صد صحابہ رضی اللہ عنہم نے مدینہ سے مختلف اوقات میں کوفہ وغیرہ کی طرف نقل مکانی کی تھی ۔اب دوسرے علاقوں میں جانے کے بعد کیاان صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل غیر معتبر ہو گا؟ کیا ان سابقہ مدنی صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل ‘اہل مدینہ کے عمل میں شمار نہیں ہوگا؟ ٭ اس بارے میں اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ھ)نے کیا خوبصورت بات کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں : الجدران و المساکن و البقاع لا تأثیر لھا فی ترجیح الأقوال و انما التأثیر لأھلھا و سکانھا۵۲؎ ’’ترجیح اقوال میں درودیوار ، مکان اور علاقے غیر مؤثر ہوتے ہیں ۔اس کے لیے تو ان علاقوں کے رہنے والے اور ساکنین ہی موثر ہوتے ہیں ۔‘‘ ’عموم بلوی ‘کی صورت میں حنفیہ کا قیاس کو خبر پر ترجیح دینا بھی ایک غیر معقول فعل ہے ۔ اس مسئلے پر ہم مولانا شبلی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ)کے تصور درایت کے ذیل میں اور تیسرے باب کی فصل اول میں مفصل بحث کر چکے ہیں ۔ 5۔ پانچواں اصول ٭ اصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ھ) لکھتے ہیں : ’’عقل کلی حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لیے پانچویں کسوٹی کا کام دیتی ہے ۔اس باب میں صاحب الکفایہ کا حوالہ ا وپر گزر چکا ہے۔ عقل کے منافی روایات قبول نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دین کی بنیاد ، جیسا کہ دوسری جگہ بیان ہو چکا ہے، تمام تر عقل و فطرت پر ہے۔ عقل و فطرت ہی کے مقتضیات و مطالبات ہیں جو قرآن وسنت میں اجاگر کیے گئے ہیں اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عقل اور فطرت ہی کے حوالے سے لوگوں پر حجت قائم کی ہے اور ان لوگوں کو عقل کا دشمن گردانا ہے جنہوں نے ہوائے نفس کی پیروی میں دین فطرت کی مخالفت کی۔ایسی صورت میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی ایسی روایت قبول کی جائے جو دین کی اصل بنیاد ہی کی نفی کرنے والی ہو ،چناچہ منافی عقل روایات قبول نہیں کی جائیں گی ۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیر بحث افراد و انفار کی عقل نہیں ،بلکہ عقل کلی ہے جو انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا شرف ہے ۔‘‘۵۳؎ ٭ غامدی صاحب اپنے استاد کی تائید میں لکھتے ہیں : ’’علم و عقل کے مسلمات بھی اس باب میں یہی حیثیت رکھتے ہیں ۔قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ اس کی دعوت تمام تر انہی مسلمات پر مبنی ہے ۔تو حید ومعاد جیسے بنیادی مباحث میں بھی اس کا استدلال اصلا انہی پر قائم ہے اور انہی کے تقاضے اور مطالبات وہ اپنی تعلیمات سے لوگوں کے سامنے نمایاں کرتا ہے۔قرآن کا ہر طالب علم اس بات سے واقف ہے کہ وہ انہیں حکم کی حیثیت سے پیش کرتا
Flag Counter