Maktaba Wahhabi

334 - 432
اجتہاد کو ترجیح دیتے ہیں ۔عموم بلوی کی صورت میں ان کے نزدیک اجتہاد خبر واحدسے زیادہ قرین احتیا ط ہے ‘‘۔۴۸؎ ٭ جناب غامدی صاحب اپنے استاذ اِمام کی تائید میں لکھتے ہیں : ’’یہی معاملہ سنت کا ہے دین کی جو ہدایت اس ذریعے سے ملی ہے اس کے متعلق بھی یہ بات اس سے پہلے پوری قطعیت سے واضح ہو چکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرآن ہی کی طرح پورے اہتمام سے جاری فرمایا ہے۔ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ وہ جس طرح امت کے اجماع سے ثابت ہے ، یہ بھی اسی طرح امت کے اجماع ہی سے اخذ کی جاتی ہے ۔سنت سے متعلق یہ حقائق چونکہ بالکل قطعی ہیں ، اس لیے خبر واحد اگر سنت کے منافی ہو اور دونوں میں توفیق کی کوئی صورت تلاش نہیں کی جاسکتی تواسے لا محالہ رد ہی کیاجائے گا۔‘‘۴۹؎ تبصرہ اصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ھ) نے اپنی بیان کردہ چوتھی کسوٹی کے ثبوت کے لیے جس روایت کو بطور دلیل نقل کیا ہے اس کی استنادی حیثیت پر ہم پچھلے اصول کے ذیل میں بحث کر چکے ہیں کہیہ روایت حد درجے ضعیف اور موضوع ہے۔ جہاں تک اصلاحی صاحب کا یہ کہنا ہے کہ عمل اہل مدینہ ،مالکیہ کے نزدیک حجت ہے اور مالکیہ ہر ایسی خبر واحد کو رد کر دیتے ہیں جو کہ عمل اہل مدینہ کے خلاف ہو۔ اس بارے میں یہ بات واضح رہے کہ یہ اصول اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) کا نہیں ہے، بلکہ یہ متاخرین مالکیہ کا ہے۔ کیا عمل اہل مدینہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ)کے ہاں نقد روایت کا کوئی اصول ہے؟ اس موضوع پر ہم تیسرے باب کی دوسرے فصل میں کافی کچھ لکھ آئے ہیں ۔ اس ضمن میں اہل علم کے مزید کچھ اقوال ملاحظہ فرمائیں: ٭ مولانا غازی عزیر مبارکپوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’راقم کو مالکیہ کی جس قدر بھی متداول و غیر متداول کتب کے مطالعے کا موقع ملا ہے ان میں سے کسی میں بھی یہ چیز نظر نہیں آئی کہ اہل مدینہ کا تعامل اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کے نزدیک سنت بلکہ سنت سے بڑھ کر درجہ رکھتا ہے۔جمہور اہل اسلام کی طرح اِمام مالک رحمہ اللہ (م۱۷۹ھ) بھی اثبات سنت میں شہریت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ سند کو ہی اس کی معرفت کا ذریعہ سمجھتے تھے۔۔۔یہ درست ہے کہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)نے اپنی کتاب المؤطأ میں تقریبا چالیس مقامات پر اہل مدینہ کے اجماع کا تذکرہ فرمایا ہے لیکن تمام اسحاب بصیرت جانتے ہیں کہ ان تمام مواقع پر اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کی مرادتائید، ترجیح اور اظہار واقعہ ہے، اس سے کسی صحیح سنت نبوی کی ردمیں حجت پکڑنا یا سنت نبوی پر اہل مدینہ کے عمل کو فوقیت یا ترجیح دین ہرگز مقصو د نہیں ہے۔اہل مدینہ کے عمل کو تائیدا نقل کرنے سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی ہے کہ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) اہل مدینہ کے عمل کو سنت کی بنیاد سمجھتے تھے لہٰذا ان کو اگر کوئی سنت اہل مدینہ کے علم و عمل کے خلاف ملتی تو وہ اسے منسوخ قرار دیتے تھے۔ان پراگندہ اور باطل خیالات کو اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کی جانب منسوب کرنا قطعا بے بنیاد ، بہتان عظیم اور سراسر ظلم ہے۔‘‘۵۰؎ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ) کے زمانے میں خلیفہ منصور (م ۱۵۸ ھ)اور پھر خلیفہ ہارون الرشید(م ۱۹۳ ھ) کا یہ خیال تھا لوگ اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)کی فقہی آرائء پر عمل کریں اور ان کتاب کی الموطأ کو قضاء و قانون کی سرکاری کتاب کا درجہ دے دیا جائے لیکن اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ھ)نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ٭ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ھ)اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وھذا یدل علی أن عمل أھل المدینۃ لیس عندہ حجۃ لجمیع الأمۃ وانما ھو اختیار منہ لما رأی علیہ
Flag Counter