Maktaba Wahhabi

333 - 432
٭ علامہ ابن القیسرانی رحمہ اللہ (م ۵۰۷ ھ)نے ذخیرۃ الحفاظ میں اسکے ایک راوی’ صالح الطلحی‘کو متروک الحدیث کہا ہے۔ ٭ علامہ عجلونی رحمہ اللہ (م ۱۱۶۲ ھ) نے کشف الخفاء میں اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔ ۴۰؎ ٭ علامہ صنعانی رحمہ اللہ (م ۱۱۸۲ ھ)نے الموضوعات میں اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔ ۴۱؎ ٭ علامہ فیروز آبادی رحمہ اللہ (م ۸۱۶ ھ)نے سفر السعادۃ میں اس کو أوضع الموضوعات کہا ہے۔ ٭ اِمام خطابی رحمہ اللہ (م ۳۸۸ھ)کا کہنا ہے کہ یہ روایت باطل اور بے اصل ہے۔۴۲؎ ٭ اِمام یحی بن معین رحمہ اللہ (م ۲۳۳ھ)کا قول ہے کہ اس روایت کو زنادقہ نے گھڑا ہے۴۳؎ ٭ علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ (م ۱۳۲۹ ھ)کا کہنا ہے کہ یہ روایت قطعا باطل اور بے اصل ہے۔۴۴؎ ٭ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)نے اسے حد درجے منکر کہا ہے۴۵؎ ۔ ٭ اِمام شوکانی رحمہ اللہ (م ۱۲۵۰ ھ) نے الفوائد المجموعۃمیں اس روایت کو من گھڑت کہا ہے۔۴۶؎ ٭ اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ (م ۱۴۲۰ ھ)نے ’ضعیف جدا‘ کہا ہے ۔ ۴۷؎ اِمام شوکانی رحمہ اللہ (م ۱۲۵۰ ھ) نے اس حدیث کو بہ اعتبار سند’ موضوع‘ قرار دیتے ہوئے اس کے متن پر یہ تبصرہ مزید کیا ہیکہ اگر خود اس حدیث کو کتاب اللہ پر پیش کیا جائے تو یہ حدیث مردود قرار پاتی ہے، کیونکہ کتاب اللہ میں موجود ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی تم کو دیں تم اس کو قبول کر لواور جس سے تم کو روک دیں تو تم بھی اس سے رک جاؤ۔ اس بارے میں مزید مفصل بحث ہم مولانا فراہی رحمہ اللہ (م۱۳۴۹ ھ) کے’ تصور درایت‘ کے ذیل میں کر چکے ہیں ۔ 4۔چوتھا اصول ٭ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ ھ) لکھتے ہیں : ’’حدیث کے صحیح و سقیم کی پرکھ کے لیے چوتھی کسوٹی سنت معلومہ ہے ۔محولہ بالا حدیث کی روشنی میں سنت کا جو ذخیرہ امت کی تحویل میں ہے وہ بجائے خود بھی کسوٹی ہے۔کوئی چیز جو اس سنت معلومہ سے بے گانہ یا متصادم ہو گی ، وہ قبول نہیں کی جائے گی کہ سنن عملی تواتر سے ثابت ہیں ، ان پر اخبار آحاد اثر انداز نہیں ہو سکتیں ۔سنن روایت کے بالمقابل قدیم تر ہیں ....سنت عملی تواتر سے ثابت ہے اس جہ سے اس کے ردو قبول کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔البتہ اخبار آحاد سے متعلق علماء نے تصریح کی ہے کہ بعض صورتوں میں لازما رد کر دی جاتی ہیں ۔۔۔خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ھ)کے نزدیک بھی وہ تمام اخبار آحادجو منافی سنت معلومہ اور عمل قائم مقام سنت کے حکم میں داخل ہیں ‘رد کر دی جائیں گی۔اسی طرح الفعل الجاری مجری السنۃعمل قائم مقام سنت کے منافی خبر واحد بھی قبول نہیں کی جائے گی۔الفعل جاری مجری السنۃسے صاحب الکفایۃ کی مراد غالبا وہی چیز ہے جس کو مالکیہ العمل عندنا ھکذاسے تعبیر کرتے ہیں ۔یعنی کسی باب میں کوئی عمل معروف کی حیثیت سے چلا آ رہا ہے ۔اس طرح کے عمل کو مالکیہ سنت ہی کے درجہ میں رکھتے ہیں ۔اس لیے کہ جو عمل پوری جماعت سے اس طرح چلا آ رہا ہے، اس کے متعلق قرینہ یہی ہے کہ اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی منظوری حاصل ہے ۔اس وجہ سے مالکیہ اہل مدینہ کی سنت کے خلاف جس طرح دوسری سنت کو قبول نہیں کرتے اسی طرح اپنے اندر کے لوگوں کے اس عمل کو بھی جو تواترکے ساتھ چلا آ رہا ہے خبر واحد کے مقابل میں زیادہ قابل اطمینان خیال کرتے ہیں ۔یہی حال حنفیہ کا بھی ہے ۔ وہ بھی ان مسائل میں جن کا تعلق عام لوگوں کی زندگی سے ہو اخبار آحاد کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے بلکہ اس عمل کو ترجیح دیتے ہیں جو لوگوں نے اپنے انتخاب و اجتہاد سے اختیار کر رکھا ہے یا اس معاملہ میں
Flag Counter