Maktaba Wahhabi

332 - 432
میں گذرا کہ یہ معرفۃ وضع الحدیث کے موضوع کے ضمن میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ 3۔تیسرا اُصول ٭ اصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ ھ)لکھتے ہیں : ’’حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لیے تیسری کسوٹی قرآن مجید ہے ۔اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: عن أبی ھریرۃ عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم أنہ قال:((سیأتیکم عنی أحادیث مختلفۃ فما جاء کم موافقا لکتاب اللّٰہ وسنتی فھو منی وما جاء کم مخالفا لکتاب اللّٰہ تعالیٰ و سنتی فلیس منی)) ۳۴؎ ’’حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب تمہارے سامنے مجھ سے منسوب ایسی روایات آئیں گی جو کہ باہم دگر متناقض ہوں گی تو جو کتاب اللہ اور میری سنت کے موافق ہو وہ تو مجھ سے ہیں اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے مخالف ہوں وہ مجھ سے نہیں ہیں ۔ اس حدیث میں ہمیں دو اصولو ں کی تعلیم دی گئی ہے ، لیکن ہم یہاں صرف کتاب اللہ کے کسوٹی ہونے پر بحث کریں گے ، سنت رسول پر بحث چوتھی کسوٹی کے تحت آئے گی۔اس میں ہمیں یہ ہدایت دی گئی کہ کوئی حدیث جو کسی پہلو سے قرآن کے خلاف ہو گی وہ قبول نہیں کی جائے گی....قرآن ہر چیز پر نگران ہے ۔حق و باطل میں امتیاز کے لیے یہی اصلی کسوٹی ہے اس وجہ سے کوئی چیز اس کے خلاف قبول نہیں کی جا سکتی۔‘‘۳۵؎ ٭ اصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ ھ)کے شاگرد غامدی صاحب بھی اصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ ھ)کی تائید میں لکھتے ہیں : ’’سند کی تحقیق کے بعد دوسری چیز حدیث کا متن ہے ۔راویوں کی سیرت و کردار اور ان کے سوانح و حالات سے متعلق صحیح معلومات تک رسائی کے لیے ائمہ محدثین رحمہم اللہ نے اگرچہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا اور اس کام میں اپنی عمریں کھپا دی ہیں ‘لیکن ہر انسانی کام کی طرح حدیث کی روایت میں بھی جو فطری خلا اس کے باوجود باقی رہ گئے ہیں ان کے پیش نظر دو باتیں اس کے متن میں بھی لازما دیکھنی چاہئیں : 1۔ایک یہ کہ اس میں کوئی چیز قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو۔ 2۔دوسری یہ کہ علم و عقل کے مسلمات کے خلاف نہ ہو۔ قرآن کے بارے میں ہم اس سے پہلے واضح کر چکے ہیں کہ دین میں اس کی حیثیت میزان وفرقان کی ہے ۔وہ ہر چیز پر نگران ہے اور حق و باطل میں امتیاز کے لیے اسے حکم بنا کر اتارا گیا ہے، لہٰذا یہ بات تو مزید کسی استدلال کا تقاضا نہیں کرتی کہ کوئی چیز اگر قرآن کے خلاف ہے تو اسے لازماً رد ہونا چاہیے ۔‘‘۳۶؎ تبصرہ اصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ ھ) نے اپنے موقف کی تائید میں جو روایت نقل کی ہے وہ حد درجے ضعیف ہے ۔ اس سلسلہ میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال ملاحظہ فرمائیں: ٭ اِمام ابن عدی رحمہ اللہ (م ۳۶۵ ھ)نے الکامل فی الضعفائ میں اسے’غیر محفوظ ‘ کہا ہے۔ ۳۷؎ ٭ اِمام دارقطنی رحمہ اللہ (م ۳۸۵ ھ)نے اپنی ’سنن‘ میں اس روایت کو ایک راوی ’صالح بن موسی‘ کی وجہ سے ضعیف قرار دیاہے۔۳۸؎ ٭ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ ھ)نے الرسالۃمیں اس روایت کو مردود کہا ہے۔ ۳۹؎
Flag Counter