تبصرہ اصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ ھ)نے اپنے موقف کے اثبات میں جس روایت کو ذکر کیا ہے، آئمہ جرح وتعدیل کے اس پر اقوال ملاحظہ فرمائیں : ٭اِمام ابن عدی رحمہ اللہ (م ۳۶۵ ھ)نے اس روایت کوالکامل فی الضعفائ میں ایک راوی سلیم بن مسلم کی وجہ سے ’غیر محفوظ‘ قرار دیاہے۔۲۸؎ ٭علامہ ابن القیسرانی رحمہ اللہ (م ۵۰۷ ھ)نے ذخیرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ اس روایت میں ایک راوی یونس بن یزید ’ثقہ‘ نہیں ہے۔۲۹؎ ٭اِمام ذہبی رحمہ اللہ (م ۷۴۸ ھ)نے سیر أعلام النبلائ میں اس روایت کو منکر کہا ہے۔۳۰؎ ٭ابن رجب رحمہ اللہ (م ۷۹۵ ھ)نے العلوم والحکم میں لکھا ہے کہ ائمہ محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک أصح قول یہ ہے کہ یہ روایت’ مرسل‘ ہے۔ ۳۱؎ ٭اِمام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (م ۲۷۷ ھ)نے اس حدیث کو ’معلول‘ قرار دیا ہے۳۲؎ ٭علامہ البانی رحمہ اللہ (م ۱۴۲۰ ھ)نے اس کو ’ضعیف جدًّا‘ کہا ہے۔۳۳؎ اس قدر ضعیف روایت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی جانچ پڑتال کے لیے معیار بنانا کیسے جائز ہو سکتا ہے ؟ صحیح بات یہی ہے کہ اصلاحی صاحب نے حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لیے جو اصول اور کسوٹیاں بیان کی ہیں وہ ان کی اپنی عقل کی اختراعات ہیں کہ جن کو شرعی دلائل سے ثابت کرنے کے لیے انہیں ضعیف احادیث کا سہارا لینا پڑاہے۔ اصلاحی صاحب رحمہ اللہ نے ایک تو انتہائی ضعیف حدیث کو اپنے فکری استدلال کے لیے دلیل بنایا، دوسراا نہوں نے حدیث کا ترجمہ بھی صحیح نہیں کیا۔ حدیث کے الفا ظ تعرفونہ کا ترجمہ یہ بنتا ہے کہ جس کو تم جانتے ہوں یا جس سے تم آشنا ہو یا جس سے تم واقف ہو، جبکہ اصلاحی صاحب اس کا مفہوم ’وہ معروف جس سے تم آشنا ہو‘ بیان کرتے ہیں۔ اصلاحی صاحب اپنا نقطہ نظر ثابت کرنے کے لیے حدیث کے ترجمے میں خواہ مخواہ ’معروف‘ کا لفظ درمیان میں کھینچ لائے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اُمت مسلمہ میں ہر دور اسلامی معاشروں میں کئی طرح کی بدعات،دین کے نام پر رائج رہی ہیں جیسا کہ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بہت ساری بدعات اِسلامی معاشروں کے معروفات کا درجہ اختیار کر چکی ہیں مثلاً میت کے قرآن خوانی کی اجتماعی محافل ،اذان سے پہلے صلاۃ و سلام اور چالیسواں وغیرہ ۔اگر ان معروف بدعات کے خلاف کوئی حدیث بیان کی جائے تو کیا ہم حدیث کو رد کر دیں گے ۔اصلاحی صاحب کے اس اصول کو استعما ل کیا جائے تو عمل معروف سے ساری بدعات ثابت ہو جائیں گی اور سنن صحیحہ، عمل معروف(یعنی بدعات) کے مخالف ہونے کی وجہ سے مرودو ہوں گی۔ باقی رہا کہ اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو اس کا مفہوم وہی ہے جو ابھی دوسرے اصول کے آخر میں حدیث: ((إذا سمعتم الحدیث عنی تعرفہ قلوبکم وتلین لہ أشعارکم وأبشارکم وترون أنہ منکم قریب فأنا أولاکم بہ، وإذا سمعتم الحدیث عنی تنکرہ قلوبکم تنفر منہ أشعارکم وأبشارکم و ترون أنہ منکم بعید فأنا أبعدکم منہ)) کے بارے |