Maktaba Wahhabi

330 - 432
(م۵۹۷ھ) رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی بعض مقامات پر موضوع روایت کی پہچان کی بعض علامات بیان کی ہیں ۔علماء اس بات کو جانتے ہیں کہ کسی چیز کی علامت اور علت (وجہ ضعیف) میں کیا فرق ہوتا ہے ۔لہذا خطیب بغدادی(م ۴۶۳ ھ)، ابن قیم (م ۷۵۱ ھ)یا ابن جوزی (م ۵۹۷ ھ) رحمہم اللہ کا احادیث کے بارے میں یہ کہنا کہ ا ن کے ذخیرے میں موضوع روایات چھانٹنے کی بنیادی علامتوں میں سے ایک علامت محدثین کرام رحمہم اللہ کا فنی ذوق بھی ہے،ایک بالکل درست بات ہے۔ ان علماء حضرات کے اقوال کا اصل مفہوم یہ ہے کہ بعض علامتیں ایسی ہیں کہ جن کی بنیاد پر ایک محدث پہلی نظر میں ہی کسی حدیث کے صحیح یاموضوع ہونے کے بارے میں ایک فوری رائے قائم کر سکتا ہے،لیکن ان اقوال کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کسی حدیث کے بارے میں کسی محدث کی پہلی رائے یہ ہو کہ وہ موضوع ہے اور بعد میں وہ صحیح یا حسن حدیث کی شرائط پر ہوری بھی اترتی ہو تو پھر بھی وہ محدث اس کو ضعیف کہیں گے۔ہم روز مرہ زندگی میں کئی علماء سے جب کسی حدیث کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو وہ اس حدیث کا متن سن کر کہتے ہیں کہ محسوس یہی ہوتا کہ یہ کوئی موضوع روایت ہے ،کبھی نظروں سے ایسی روایت گزری نہیں ہے۔ اب اگر ان عالم صاحب پر بعد میں واضح جائے کہ یہ روایت حدیث کی فلاں کتاب میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے تو وہ اس کو صحیح قرار دینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ بعینہ یہی معاملہ سلف صالحین کا ہے، ان کا حدیث کی درس و تدریس میں شغل بہت زیادہ تھا، لہٰذا جب ان سے کسی حدیث کی صحت کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ پہلی نظر میں ہی وہ اپنے وسیع مطالعہ اور طویل تجربہ کی روشنی میں حاصل ہوجانے والے فنی ذوق کی روشنی میں اس روایت کے بارے میں عموما کوئی حکم لگا دیتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے کچھ علامتیں بھی مقرر کی ہوئی تھیں کہ اگر ان علامات میں سے کوئی علامت ہو تو اس حدیث کے موضوع ہونے کا امکان غالب ہے ۔سلف کا مقصود ان علامات کو بیان کرنے سے ہر گز یہ نہیں ہوتا تھا کہ اگر کوئی روایت، جس میں ان کی بیان کردہ علامات میں سے کوئی علامت پائی جاتی ہو ، محدثین کرام رحمہم اللہ کے اصولوں کے مطابق مقبول قرار پائے تو وہ اس کو بھی صرف ان علامات کی بنیاد پر موضوع قرار دیں گے۔ اصلاحی صاحب (م ۱۴۱۸ ھ)نے اپنی کتاب ’مبادی تدبر حدیث‘ میں بعض اہل علم یعنی ربیع بن خیثم رحمہ اللہ (م ۶۴ھ)، ولید بن مسلم رحمہ اللہ (م ۱۹۵ ھ)اور جریر رحمہ اللہ (م ۷۰ ھ)وغیرہ کے جو اقوال ذکر کیے ہیں وہ در اصل معرفۃ وضع الحدیث کے ضمن میں ضعیف حدیث کی علامات کے طور پر وارد ہوئے ہیں ، جیساکہ چھٹے باب کی دوسرے فصل میں تفصیلا آئے گا۔ 2۔دوسرا اُصول ٭ اصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ ھ)لکھتے ہیں : ’’حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لیے دوسری کسوٹی عمل معروف ہے۔اس کی ہدایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ملتی ہے : عن محمد بن جبیر بن مطعم عن أبیہ قال: قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم ((ماحدثتم عنی مما تعرفونہ فخذوہ وما حدثتم عنی مما تنکرونہ فلا تأخذوا بہ قال: فإنی لا أقول المنکر ولست من أھلہ)) ۲۶؎ ’’محمد بن جبیر بن مطعم اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھ سے منسوب کر کے کوئی روایت اس معروف کے مطابق کی جائے جس سے تم آشنا ہو توتم اس کو قبول کر لو۔اور اگر مجھ سے منسوب کر کے کوئی ایسی راویت کی جائے جس کو تم منکر محسوس کرو تو اس کونہ قبول کرو۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ میں منکر کہتا ہوں اور نہ میں منکر باتیں کرنے والوں میں سے ہوں ۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر روایت تمہاری معروفات کے مطابق ہوتو اس کو قبول کرو اور اگر ان سے متصادم ہو تو اس کو رد کردو۔‘‘۲۷؎
Flag Counter