منسوب الیہ کے حالات اور دیگر قرائن عقلی کے ساتھ کیا نسبت رکھتا ہے۔ اگر اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو اس کی صحت بھی مشتبہ ہوگی۔.... اس قسم کے قواعد حدیث کی تحقیق و تنقید میں بھی استعمال کئے جاتے ہیں اور انہی کا نام اصول درایت ہے۔‘‘۲۴؎ درایت کا یہ معیار کسی تاریخی واقعہ کو پرکھنے کے لئے تو مفید ہے کیونکہ تاریخ افواہوں اور مشہور واقعات ہی سے جنم لیتی ہے۔ اور اسناد کی کلی تحقیق موجود نہ ہونے کی صورت میں تاریخ کو پرکھنے کے یہی ذرائع ہمارے پاس ہیں ، لیکن حدیث کی صحت و ضعف کے لئے یہ اصول کافی نہیں ۔ اگرچہ مسلمانوں نے اسلامی تاریخ (سیرت) کو بھی انہی اصولوں پر پرکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن ا س کے باوجود سیرت کی معتبر ترین کتاب ’سیرت ابن اسحق‘ کا مؤلف جرح و تعدیل کے اعتبار سے مدلس ہے۔ توباقی سیرت کی کتابوں کے درجہ کا خود اندازہ کرلیجیے۔ اس کے بالمقام سنت رسول اور احکامات شریعت کو محفوظ کرنا بھی تاریخ ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس میں جس قسم کی احتیاط کی گئی ہے سیرت کی کتب میں وہ معیار قطعی مفقود ہے کیونکہ تاریخ رطب ویابس کا مجموعہ اور احادیث تحقیق کا اعلی ترین معیار ! ٭ اس حوالے سے مولانا مودودی رحمہ اللہ (م ۱۴۰۰ ھ)لکھتے ہیں : ’’جو سنتیں احکام کے متعلق تھیں ان کے بارے میں پوری چھان بین کی گئی۔ سخت تنقید کی چھانیوں سے ان کو چھانا گیا۔ روایت کے اصولوں پر بھی ان کو پرکھا گیا اور درایت کے اصولوں پر بھی اور وہ سارا مواد جمع کردیا، جس کی بناء پر کوئی روایت مانی گئی یا رد کردی گئی تاکہ بعد میں بھی ہر شخص اس کے رد قبول کے متعلق تحقیقی رائے قائم کرسکے۔‘‘۲۵؎ ٭ اس حوالے سے علامہ شبلی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) نے بھی ’’سیرۃ النبی‘‘ کے مقدمہ میں فرمایا ہے: ’’سیرت کی روایتیں بہ اعتبار پایہ صحت روایات ِاَحادیث سے فروتر ہیں بصورت اختلاف روایت ِاحادیث کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔‘‘ ٭ علامہ شبلی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) مزید فرماتے ہیں : ’’اسی بناء پر مجموعی حیثیت سے سیرت کا ذخیرہ کتب حدیث کا ہم پلہ نہیں ۔ البتہ ان میں سے تحقیق و تنقید کے معیار پر جو اتر جائے وہ حجت اور استناد کے قابل ہے۔‘‘۲۶؎ سیرت کی کتابوں کی کم پائیگی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحقیق اور تنقید کی ضرورت احادیث احکام کے ساتھ مخصوص کردی گئی ہے یعنی وہ روایتیں تنقید کی زیادہ محتاج ہیں جن سے شرعی احکام ثابت ہوتے ہیں ۔ باقی جو روایتیں سیرت اور فضائل وغیرہ سے متعلق ہیں ان میں احتیاط کی چنداں ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ ٭ واقعہ یہ ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ اِسناد روایت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اور انہیں دین اسلام کا جزولازم قرار دیتے تھے۔ اس لئے کہ اگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اسانید نہ ہوتیں ، تو فرقہ ضالہ کوروایات و احادیث گھڑنے کا موقعہ مل جاتا اور وہ دین اسلام کی روح بگاڑ کر رکھ دیتے، جس کی بہت زیادہ کوششیں بھی کی گئیں ، لیکن آئمہ محدثین رحمہم اللہ نے روایات پرکھنے کے لئے ایسے ایسے اصول وضع کیے جن کی وجہ سے گمراہ لوگ دین اسلام کی روح کومسموم نہ کرسکے، جبکہ مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) محدثین کرام رحمہم اللہ کے روایات پرکھنے کے اصولوں کونظر انداز کرتے ہوئے مغربی دنیاکے طرز تحقیق سے متاثر ہوگئے، جن کے پاس معیار تحقیق سرے سے موجود ہی نہیں ۔ علامہ شبلی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) چونکہ بنیادی طور پر مورخ تھے اور تاریخ کی سند نہ ہونے کی وجہ سے فقط ’متن کی تحقیق برائے متن‘ ہی کے قائل تھے، اس لئے انہوں نے مغالطہ کھاتے ہوئے تاریخ کا اندازِ تحقیق ہی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحقیقی اسلوب میں معیار قرار دیا، |