Maktaba Wahhabi

313 - 432
٭ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م۱۱۷۶ھ) کی تحریک آزادی فکر کی روشنی میں جو ایک طبقہ معرض وجود میں آیا، وہ تو مسائل فقہیہ میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری کا قائل تھا ہی، جبکہ دعویدار تواس بات کے علمائے احناف بھی تھے، لیکن عملاً اُس بنیادی اختلاف کی وجہ سے کہ اِمام جو تعبیر شرع کی کرے و ہی متعین شرع ہے، قرآن وسنت کو اِمام کے قول پر پیش کیا جانے لگا۔ چنانچہ جب کسی جگہ اِمام کی کوئی بات اس کی بشری کمزوری کی وجہ سے شریعت اسلامیہ کے مدعا ومقتضا کے مخالف ہوجاتی یا انہیں مسئلے کے سلسلے میں کوئی صحیح حدیث نہ مل پائی تو علمائے احناف کے ہاں مکمل کوشش قرآن وسنت کے مفہوم میں اس کے توافق کی جاتی چاہے اس کے لئے ضعیف احادیث کو ہی بنیاد بنانا پڑے۔ چنانچہ شرعی حیلوں کے نام احادیث کو چھوڑنا ہو یا اخبار آحاد کو مختلف درایتی اصولوں کے نام پرقبول کرنا وغیرہ یہ سب اصول،اصول فقہ اور اصول حدیث میں در آئے۔ عملا صورت حال یہ بنی کہ کتاب وسنت کو فقہ پر بالا دستی دینے کی بجائے عملاً فقہ کو قرآن وسنت پر بالادستی دینے کی کوششیں جاری ہوگئیں ۔ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) جن کا قیام پاکستان کی تاریخ میں مقام مسلمہ ہے،غالبا بر صغیر پاک وہند میں وہ پہلے شخص ہیں ، جنہوں نے اِمام صاحب رحمہ اللہ سے انتہاء درجے کی عقیدت میں ’ سند سے قطع نظر، متن کی تحقیق‘ کا نعرہ نئے سرے سے درایت کے نام پر بلند کیا۔ مزید برآں مولانا شبلی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) ایک عالم دین سے زیادہ مؤرخ کی حیثیت سے زیادہ معروف رہے، جیساکہ ان کا سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کام بے مثال ہے۔تاریخی مرویات کے پرکھنے کا اسلوب، جیساکہ باب اول میں گذر چکا ہے، درایتی ہی ہوتا ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا شبلی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) جہاں علمائے احناف کے ’تصور درایت‘ سے متاثر ہیں وہاں ایک مؤرخ ہونے کے ناطے اس غلط فہمی کا بھی شکار ہیں کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیرت پاک کا ہی درجہ رکھتی ہے، چنانچہ تحقیق سیرت کا اسلوب ہی تحقیق حدیث میں روا رکھا جائے گا۔ ٭ علامہ شبلی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) لکھتے ہیں : ’’ تاریخ میں پہلی دفعہ درایت کے اس تصور کی بنیاد علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ (م۸۰۸ھ)نے آٹھویں صدی ہجری میں رکھی۔انہوں نے جب فلسفہ تاریخ کی بنیادڈالی، تو’درایت‘ کے اصول نہایت سنجی اور باریک بینی کے ساتھ مرتب کیے، چنانچہ وہ اپنے شہرہ آفاق ’مقدمہ ‘کے دیباچے میں لکھتے ہیں : إن الأخبار إذا اعتمد فیہا علی مجرد النقل ولم تحکم أصول العادۃ وقواعد السیاسۃ وطبیعۃ العمران والأحوال فی الاجتماع الإنسانی ولاقیس الغائب فیہا بالشاہد والحاضر بالذاہب فربما یومن فیہا من العثور۲۲؎ ’’خبروں میں اگر صرف روایت پر اعتبار کرلیاجائے اور عادت کے اصول اور سیاست کے قواعد اور انسانی سوسائٹی کے اقتدا کالحاظ اچھی طرح نہ کیا جائے اور غائب کوحاضر اور حال گذشتہ پر نہ قیاس کیاجائے تواکثر لغزش ہوگی ۔‘‘ ٭ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ (م۸۰۸ھ)کی اس فکر کی وضاحت کرتے ہوئے مولاناشبلی نعمانی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) لکھتے ہیں : ’’علامہ موصوف نے تصریح کی ہے کہ واقعہ کی تحقیق کے لئے پہلے راویوں کی جرح تعدیل سے بحث نہیں کرنی چاہیے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ واقعہ فی نفسہ ممکن بھی ہے کہ نہیں ، کیونکہ اگر واقعہ کا ہونا ممکن ہی نہیں تو راوی کا عادل ہونا بے کار ہے اور علامہ موصوف نے یہ بھی ظاہر کردیا کہ ان موقعوں میں امکان سے مراد امکانی عقلی نہیں ،بلکہ اصول عادت اور قواعد تمدن کی رو سے ممکن ہونامراد ہے ۔‘‘۲۳؎ ٭ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) مزید فرماتے ہیں : ’’ ’درایت‘ سے یہ مطلب ہے کہ جب کوئی واقعہ بیان کیا جائے تو اس پر غور کیا جائے کہ وہ طبیعت انسانی کے اقتضاء زمانہ کی خصوصیتیں ،
Flag Counter