Maktaba Wahhabi

312 - 432
عمل کیا جائے۔‘‘۱۶؎ 3۔ شرح مسلم کے تکملہ میں مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’خود تو حنفی بنو، لیکن قرآن وسنت کو حنفی مت بناؤ۔‘‘ ۱۷؎ مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ صاحب کی مراد مذکورہ قول سے یہ ہے کہ قرآن وسنت سے استفادہ کسی بھی فقہ کی روشنی میں نہ کرتے ہوئے فقط محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے براہ راست حدیث وسنت سے استفادہ کریں یا مراد یہ ہے کہ تقلید کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاویل کیے بغیر اِمام کی تقلید کر لیجئے۔ 4۔ معارف القرآن کی متعدد جلدوں میں اور اسی طرح ’اتحاد امت‘ میں مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ (م۱۳۹۶ھ) اپنے استاد اور علمائے احناف کے خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ (م۱۳۵۲ھ)کی نسبت سے یہ واقعہ بیان کرتے ہیں : ’’ قادیان میں ایک جلسہ تھا وہاں پرعلامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ (م۱۳۵۲ھ)بھی تشریف فرما تھے۔رات کا وقت ہے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ (م۱۳۵۲ھ) رو رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ’’ زندگی برباد ہوگئی، زندگی برباد ہوگئی‘‘۔ میں نے حضرت کو کندھوں سے پکڑ لیا اوررونے کا سبب پوچھا توکہنے لگے کہ’’ ساری عمر اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ) کے مذہب کے دفاع میں اور فقہ حنفی کو فقہ شافعی پر ترجیح دینے میں گزر گئی اور شریعت کی خدمت نہ ہوسکی۔ افسوس ہماری اس کشمکش سے غیروں نے فائدہ اٹھالیا۔‘‘ پھر فرمایا:’’اگر اللہ نے مزید زندگی دی تو قرآن و سنت کی خدمت میں گذاروں گا۔‘‘۱۸؎ المختصراس معنی میں ہندوستان میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (م۱۱۷۶ھ) کے فکر کی تحریک کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والے دونوں طبقات اہل سنت کے فکر میں بنیادی کوئی اختلاف نہیں ۔ چنانچہ علمائے اہل حدیث کے چوٹی کے مناظر مولانا محمدحسین بٹالوی رحمہ اللہ (م۱۳۴۹ھ) اشاعت السنۃ کے شروع کے شماروں میں فرماتے ہیں : ’’ہم فقہ میں اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ)کے مقلد ہیں ، سوائے اس مسئلہ میں جس میں حدیث صریح آجائے۔‘‘۱۹؎ اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ) بنفس نفیس خود بھی اسی کی تعلیم دیاکرتے تھے۔ صاحب الہدایہ روضۃ العلماء میں لکھتے ہیں : ’’ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ)سے سوال کیا گیاکہ جب آپ کوئی ایسی بات کہیں جو اللہ کی کتاب کے خلاف ہو ؟ تو فرمایا: اترکوا قولی بکتاب اﷲ یعنی’’ کتاب اللہ کے مقابلے میں میرے قول کو کوئی حیثیت نہ دو۔‘‘ پھر سوال کیا گیا کہ اگر آپ کے فرمان کے خلاف حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو توپھر کیا کریں ؟ فرمایا: ’’ میرے قول کورسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں ترک کردو ‘‘۔پھر سوال ہوا اگر آپ کے قول کے خلاف کسی صحابی کافرمان آجائے، تو فرمایا: ’’صحابی کے فرمان کولے لو اور میری بات کو چھوڑدو۔ ‘‘۲۰؎ مدینہ منورہ کی عالمی یونیورسٹی الجامعۃ الإسلامیۃ کے استاذ الحدیث الشیخ عاصم حفظہ اللہ اپنی بات کی دلیل میں یہی چیز پیش کرتے ہیں کہ حدیث کو لینا بھی اِمام کے قول کی تقلید میں ہی ہے، کیونکہ اِمام صاحب رحمہ اللہ کا ہی تو قول گرامی ہے: إذا صح الحدیث فہو مذہبی۲۱؎ ’’جب حدیث صحت سند سے تمہارے پاس پہنچے تو میرا فقہی مذہب وہی ہوگا جو حدیث نبوی کے موافق ہو۔‘‘ گویا جو اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ)کاسچا پیروکار ہوگا وہ اِمام صاحب رحمہ اللہ کے اس قول کی بھی اتباع کرے گا، جیساکہ اِمام صاحب رحمہ اللہ کے اولین تلامذہ اسی رویہ پر چلتے ہوئے بے شمار مسائل میں حدیث کی روشنی میں ایسے فتوے بھی دیتے رہے جو بظاہر اِمام کے مطابق نہ تھے۔
Flag Counter