Maktaba Wahhabi

311 - 432
٭ علامہ ظہیر احسن نیموی رحمہ اللہ (م۱۳۲۵ھ) کی حنفی مسلک کے اثبات کے لیے بے قراری ذیل میں ملاحظہ فرمائیے۔ وہ ایک رسالہ رد السکین جو ۱۲۲۳ ہجری میں قومی پریس لکھنو سے طبع ہوا، اس میں ایک اشتہار اور اعلان یوں رقم فرماتے ہیں : ’’یہ تو ظاہر ہے کہ حدیث میں پہلے بلوغ المرام یا مشکوۃ شریف پڑھائی جاتی ہے او ران کے مؤلف شافعی المذہب تھے۔ ان کتابوں میں زیادہ وہی احادیث ہیں جو مذہب اِمام شافعی رحمہ اللہ (م۲۰۴ھ) کی مؤید اور مذہب حنفی کے خلاف ہیں ۔ اس پر طرہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر مؤلف در پردہ غیر مقلد ہوتے ہیں ، پیچارے طلبہ یہ ابتدائی کتب پڑھ کر مذہب حنفی سے بد عقیدہ ہوجاتے ہیں اور جب صحاح ستہ کی نوبت آتی ہے تو ان کے خیالات اور بھی بدل جاتے ہیں ۔ علمائے حنفیہ نے کوئی ایسی کتاب قابل درس تالیف نہیں کی کہ جس میں مختلف کتب احادیث بھی وہ ہوں جن میں مذہب حنفی کی تائید ہوتی ہو جن مذہب حنفی کی تائید ہوتی ہو، پھر بے چارے طلبہ ابتدا میں پڑھیں تو کیا؟ او ران کے عقائد درست رہیں تو کیونکر؟ آخر بیچارے غیر مقلد نہ ہوں تو کیا ہوں ؟ فقیر نے انہی خیالات سے حدیث شریف میں آثار السننکے نام سے کتاب لکھی اور ارادہ ہے کہ کتب متداولہ کے علاوہ عرب وعجم کی نایاب کتب احادیث سے حدیثیں انتخاب کرکے جمع کروں اور حاشیہ میں اسانید لکھ دوں ۔‘‘ ٭ اسی طرح ایک نامور فاضل مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ (م۱۳۶۵ھ) نے مسلک دار العلوم کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ فرمایا: ’’دار العلوم کا اساسی مقصدحنفیت کی تائید ہے۔‘‘ ۱۲؎ ٭ اسی طرح علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ (م۱۳۵۲ھ) فرماتے ہیں : ’’ میں نے حنفیت کو اس طرح مستحکم کردیا ہے کہ اب ان شاء اللہ سو سال تک اس کی بنیادیں غیر متزلزل رہیں گی۔‘‘ ۱۳؎ ٭ ایک اور جگہ علامہ کاشمیری رحمہ اللہ (م۱۳۵۲ھ)فرماتے ہیں : ’’ خدا تعالیٰ نے مجھے اس عہد میں حنفیت کے استحکام کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘۱۴؎ اہل الرائے رحمہم اللہ کے اساسی نظریہ ( یعنی جب قرآن وسنت کی کوئی بات اِمام کے قول سے ٹکرا جائے تو چونکہ قرآن وسنت کی تعبیر میں اِمام کے قول کو ایک حیثیت حاصل ہے)کی وجہ سے علامہ سرخسی رحمہ اللہ نے اصول سرخسی میں ایسے اصول وضع کیے کہ جن کو ’درایت‘ یا ’شدت احتیاط‘ کے نام پر حدیث وسنت کے قبول کے لئے ’لازمی شرط ‘ قرار دیا گیا۔ مذکورہ رویہ کے بالمقابل شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م۱۱۷۶ھ) کی’ تحریک آزادی فکر‘ کے مثبت نتیجہ کے طور پر جو بات محقق علمائے احناف میں پیدا ہوئی اور جس کی تائید سب ہی معتدل مزاج حنفی علماء کرتے رہے، وہ ذیل میں معتدل علمائے احناف کے ہی حوالے سے مختصرا پیش خدمت ہے: 1۔ امام کے قول کو بغیر کسی شرعی دلیل کے اختیار کرنا جائز نہیں ، کیونکہ اِمام اس معاملے میں بھی اپنی تقلید کا حکم دیتے ہیں ، جیساکہ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ) نے خود فرمایا : لا یجوز لأحد أن یفتی علی قولی بغیر أن یعرف دلیلی۱۵؎ ’’کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ میری دلیل جانے بغیر میرے قول پر فتوی دے۔‘‘ 2۔مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (م۱۳۶۲ھ)نے اپنی کتاب الحیلۃ الناجدۃ میں فقہ حنفی کے کافی مخالف ِحدیث مسائل ذکر کرنے کے بعد ان کے بارے میں یوں فرمایا ہے: ’’ ایسے موقعہ پر قرآن وسنت کو اختیار کرنے کی تقلید میں رہتے ہوئے بھی ایک صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ حیلہ کرتے ہوئے شرعی نص پر
Flag Counter