انکار نہیں کیا گیابلکہ فقہ اِمام کو تعبیر شریعت میں ایک مستقل حیثیت دیدی گئی۔ ان لوگوں کے نزدیک اجتہادی تصور یہ تھا کہ جس طرح قرآن کریم کے شارح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور قرآن کی شرح وتبیین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات حجت ہے، اس طرح سنت کے شارح ائمہ ہیں چنانچہ سنت کی تشریح میں ان کی بات بھی نبی کی طرح حجت ہے۔ البتہ وہ اس بات کو نظر انداز کرگئے کہ نبی کی بات تو وحی، حتمی اور دائمی ہوتی ہے کیوں کہ وہ قرآن کریم کی الٰہی تعبیر ہے، جبکہ اِمام سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعبیر کرتا ہے وہ اجتہادی ہے جس میں صحت وسقم دونوں امکانات موجود ہیں ۔ (جیسا کہ اس سلسلہ میں مکمل تفصیل باب رابع کی دوسری فصل میں گزر چکی ہے۔) الغرض شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (م۱۱۷۶ھ) کی تحریک کے نتیجے میں مثبت اثر یہ ہوا کہ قرآن وسنت سے استفادہ شروع ہوگیا، البتہ علمائے احناف کے ہاں قرآن وسنت کی تعبیر میں چونکہ اِمام کی تشریحات کو بنیادی حیثیت حاصل تھی اس لئے اس کے لئے جس طرح ہوسکا۔ قرآن وسنت کو اِمام کے موافق بنانے کی کوششیں شروع ہوگئیں ، جن کے ذریعے فقہ اور حدیث کی آپس میں برتری کی کشمکش چل پڑی۔ یہ اختلاف اس سے پہلے بھی مختلف ادوار میں ابھرتا رہا، جیساکہیہ صورت حال بڑے اہل علم کے درج ذیل اقوال سے واضح ہوتی ہے: 1۔ابن ادیس رحمہ اللہ (م ۷۳۰ھ)کا قول ہے: فلعنۃ ربنا اعداد رمل علی من رد قول أبی حنیفۃ۷؎ 2۔ اسی طرح ابن عابدین رحمہ اللہ (م۱۳۰۷ھ) در مختار میں کہتے ہیں : لعنۃ اللّٰہ عدد رمل علیٰ من رد قول أبی حنیفۃ۸؎ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کی بجائے شعر یوں ہوتا توکیا خوب تھا: لعنۃ اللّٰہ عدد رمل علیٰ من رد قول أبی القاسم صلي اللّٰه عليه وسلم 3۔ علامہ کرخی رحمہ اللہ (م۳۴۰ھ) لکھتے ہیں : ’’جو قرآن کی آیت یا حدیث ہمارے اِمام کے قول کے مخالف ہو تو سمجھ لو کہ یا تو وہ مؤول ہے یا منسوخ، تیسری کوئی صورت نہیں ۔‘‘۹؎ مسئلہ خیار مجلس کے ضمن میں آئمہ کا اختلاف ہے کہ تفرق سے کیا مراد ہے؟ تفرق بالابدان یا تفرق بالاقوال، اِمام شافعی رحمہ اللہ (م۲۰۴ھ)تفرد ابدان کے قائل ہیں ، جبکہ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ)متفرق اقوال کے قائل ہیں ۔ ٭ اس مسئلہ کے ضمن میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ (م۱۳۳۹ھ)نے حاشیہ ترمذی کے مقدمہ میں لکھا ہے : ’’ حق تو اس سلسلے میں دلائل و نصوص کے اعتبار سے اِمام شافعی(م۲۰۴ھ) کے ساتھ ہے لیکن ہم تو مقلد ہیں اور ہم پر اِمام صاحب کی تقلید واجب ہے۔‘‘ ۱۰؎ ٭ اسی قسم کا قول ملا علی قاری رحمہ اللہ (م۱۰۱۴ھ) وغیرہ سے بھی منقول ہے۔ انکا ایک مشہور قول مقدمہ مرقاۃ شرح مشکوۃ میں یہ بھی موجود ہے کہ وہ اس شرح کا سبب تالیف ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’مشکوۃ فقہ شافعی رحمہ اللہ (م۲۰۴ھ) کے مسلک پر لکھی گئی ہے چنانچہ میں نے چاہا کہ اسکی شرح لکھوں تاکہ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ) کا دفاع ہوجائے۔‘‘ ۱۱؎ چنانچہ یہ شرح فی الحقیقت مذہب اِمام کو ثابت کرنے کی غرض سے لکھی گئی ہے اور اس میں حدیث کی حنفی تعبیر کا التزام کیا گیا ہے۔ ٭ اسی طرح علامہ عینی رحمہ اللہ (م۸۵۵ھ)نے بھی عمدۃ القاری في شرح البخاري کا یہی سبب تصنیف بیان کیاہی۔ |