چنانچہ فقہ کو شریعت پر پیش کیا جائے۔ عملاً خود شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (م۱۱۷۶ھ) نے قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست رابطہ کیلئے قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کام کیا۔ انہوں نے اور ان کے بیٹوں نے قرآن کے مختلف زبانوں میں تراجم کئے۔ سنت میں خصوصاً شاہ صاحب رحمہ اللہ کا کام ان کتب کے بارے میں ملتا ہے جو کہ احادیث وآثار صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہم اللہ کے متعلق تھیں اور فقہی طرز پر مدون کی گئیں ۔ چنانچہ فقہ و حدیث کی چوٹی کی کتاب موطا کی فارسی وعربی ہر دو زبانوں میں المسوّیٰ اور المصفیٰ کے نام سے شروح لکھ کر قرآن وسنت سے استفادہ آسان کر دیا۔ اگرچہ شاہ صاحب رحمہ اللہ پر بھی ان عظیم کاموں کی وجہ سے کفر کے بے بہا فتوے لگے، تاہم شاہ صاحب رحمہ اللہ اپنی زندگی میں یہ کام کر گئے اور واضح کر دیا کہ کتاب وسنت سے استفادہ نہ کرنا سرا سر گمراہی ہے، چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (م۱۱۷۶ھ)کی اس تحریک اور محنت کے نتیجے میں غیر منقسم بر صغیر میں علماء دو طبقوں میں بٹ گئے: 1۔ علمائے حدیث یہ تمام ائمہ کرام سے استفادہ لازمی سمجھتے تھے، لیکن اِماموں اور خود قرآن وسنت کے حکم پر ان اِماموں کی بات کو قرآن وسنت پر پیش کرتے۔ اگر وہ موافق ہوتی تو اسے لیتے اور اگر مخالف ہوتی تو ائمہ کرام کی تنقیص کیے بغیر قرآن وسنت پر عامل ہوتے۔ گویا یہ طبقہ قرآن وسنت کی شرح میں صادر ہونے والے تمام فقہی اقوال کی کسوٹی قرآن وسنت کو سمجھتا تھا۔ 2۔ علمائے احناف شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (م۱۱۷۶ھ)کی اس تحریک کے نتیجہ میں جو مثبت فکر ان کے ہاں پیدا ہوئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بھی قرآن وسنت سے استفادہ کرنا شروع کردیا۔ اسی وجہ سے شاہ صاحب رحمہ اللہ کو ہر مکتبہ فکر میں انتہائی احترام کا درجہ حاصل ہے، اگرچہ وہ مسلکا حنفی ہی تھے۔ ٭ ماہنامہ ’البلاغ‘ کراچی کے مضمون نگار رقم طراز ہیں : ’’(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی کاوشوں کی وجہ سے) حنفی علماء میں کتب حدیث کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور وہ فقہی مسائل کو احادیث کی روشنی میں ثابت کرنے پر متوجہ ہوئے۔‘‘ ۵؎ ٭ اسی طرح مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ (م۱۳۷۹ھ) لکھتے ہیں : ’’صحاح ستہ کی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ شاہ صاحب رحمہ اللہ کے عہد سے آج تک بحمد اللہ اس ملک میں بدعات کا زور گھٹ رہا ہے اور سنت نبوی کا شوق پروان چڑھ رہا ہے۔ اب فقہاء کرام رحمہم اللہ بلکہ حضرات صوفیاء بھی ہر عربی عبارت کے ٹکڑے کو حدیث کا درجہ نہیں دیتے اور نہ اقوال تابعین مرسلات اور منقطعات کو حدیث مرفوع متصل کا ہم پلہ سمجھا جاتاہے۔‘‘ ۶؎ چنانچہ مدارس کے نصاب میں کتب حدیث اور قرآن کے ترجمہ وتفسیر کو شامل نصاب کر لیا گیا لیکن اس دور میں موجودمذہی تصلب کی وجہ سے چونکہ اِمام کی تقلید سے سر باہر نکالنا محال تھا، چنانچہ اِمام کو قرآن وسنت پر پیش کرنے کی بجائے قرآن وسنت کے مفہوم کی تعیین اِمام سے کروائی جانے لگی۔ قرآن وسنت کی جو تعلیم اِمام کے موافق ہوتی اسے تسلیم کیا جاتا اور جو مخالف ہوتی اس کی ایسی تاویل کی جاتی کہ اسے اِمام کے موقف کے عین مطابق کیا جاتا۔ اس معاملہ کی بھی در اصل بنیاد اس اجتہاد پر تھی کہ اِمام جو بات کہتا ہے اس میں وہ شریعت کی گہرائی اور درایت کو پہنچا ہوا ہے، اس لئے شریعت کی تعبیر وہی درست ہوگی جو اِمام پیش کرے گا۔ گویا قرآن وسنت کا |