ہندوستان میں جن حالات میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (م۱۱۷۶ھ) تشریف لائے ہیں ،یہ وہ دور ہے جس میں فقہ پر تقلیدی جمود کا اس قدر دور دورہ تھا کہ اس کی ایک تصویرپروفیسرمحمد سلیمان رحمہ اللہ ’سیرت محمد بن عبد الوہاب ‘ میں اس معاشرہ کے کئی سال پرانے ماضی کے حوالے سے یوں کھینچتے ہیں : ’’ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ (م۱۲۰۶ھ) کے زمانہ میں تقلید وجمود کی بندشیں اس قدر مضبوط ہو چکی تھیں کہ ایک موقعہ پر خواجہ نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ اور خواجہ رکن الدین رحمہ اللہ ،جو کہ ہندوستان میں فقہاء کرام رحمہم اللہ کے سر براہ تسلیم کیے جاتے تھے، ان کا کسی مسئلہ پر آپس میں مناظرہ ہوگیا توخواجہ نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ نے جب اس مسئلہ کی دلیل میں ایک روایت بطور استدلال پیش کی تو ہندوستان کے سب سے بڑے فقیہ خواجہ رکن الدین صاحب رحمہ اللہ نے کہا کہ’’ میں بھی مقلدہوں اور آپ بھی ، اس لیے حدیث کی کیا ضرورت کیا ہے ، اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ) کا قول پیش فرمائیے۔‘‘۱؎ ٭ اسی طرح مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ (م۱۴۲۰ھ) لکھتے ہیں : ’’ دختران راجہائے عظیم ہند نے بادشاہ کے کان بھرے کہ اس نے ملاؤں کو ایسا سر چڑھا لیا ہے کہ وہ منشائے سلطانی کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ دربار میں یہ سوال اٹھا کہ مذہب حنفی میں شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا موت نہیں ، اس لیے یہ اقدام اس مذہب کے بھی خلاف ہے جس کاقانون اس ملک میں چلتا ہے۔‘‘ ۲؎ گیارہویں صدی ہجری میں برہان پور میں قاضی نصیر الدین رحمہ اللہ (متوفی:۱۰۳۱ھ) ایک معروف عالم اور محدث وفقیہ گزرے ہیں ، جو متبع کتاب وسنت اور پابند احکام شریعہ تھے۔ حدیث کو قیاس ِ مجتہد پر ترجیح دیتے تھے او را س کے مقابلہ میں کسی امتی کے قول کو ہرگز قبول نہیں کرتے تھے۔ دوسری طرف انہی کے سسر شیخ علم اللہ رحمہ اللہ متصلب حنفی عالم تھے۔ ٭ ایک دفعہ شیخ علم اللہ رحمہ اللہ نے کسی مسئلہ میں اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ)کے قول سے استدلال کیا تو ان کے داماد قاضی نصیرالدین رحمہ اللہ (م۱۰۳۱ھ) نے اس کے مقابلہ میں حدیث پیش کردی۔ شیخ نہ مانے تو قاضی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م۱۵۰ھ)بھی ایک انسان تھے او رمیں بھی ایک انسان ہوں ۔ ہمارے لیے اصل چیز جو قابل حجت ہے وہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اس پر شیخ علم اللہ نے غصہ میں آکر تلوار نکال لی اوراپنے داماد کو قتل کرنے کے لیے ان کے پیچھے دوڑے، لیکن قاضی صاحب نے بھاگ کر جان بچائی۔‘‘۳؎ فقہ کی شریعت پر اس برتری کے خلاف اولین اقدام کا شرف قاضی شیخ نصیر الدین رحمہ اللہ (م۱۰۳۱ھ)کو حاصل ہے۔ ٭ صاحب نزہۃ الخواطر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وکان ممن یرجح الحدیث ایاما کان علی قیاس المجتہد۔۴؎ ’’آپ ان علمامیں سے تھے جو قیاس مجتہد پر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دیتے تھے اور حدیث کے مقابلے میں قیاس کے سرے سے منکر تھے۔‘‘ پھر شیخ احمد سرہندی المعروف بہ مجددالف ثانی رحمہ اللہ (م۱۰۳۴ھ) نے عوامی سطح پر یہ آواز بلند کی کہ نصوص کو غیر نصوص پر تقدیم وترجیح حاصل ہونی چاہئے۔ اگرچہ ان کے فقط اس دعوے پر ہی ان کو بڑی صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا، لیکن انہوں نے بڑی عزیمت سے ان چیزوں کو برداشت کیا لیکن اپنا یہ موقف دو ٹوک انداز میں علماء کے سامنے پیش کر گئے۔ البتہ اصل فکرکو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م۱۱۷۶ھ) نے بعد میں اجاگر کیا کہ اِمام کی تقلید سے مراد جامد تقلید نہیں ،بلکہ قرآن وسنت سے ہی یہ فقہ حاصل کی گئی ہے، |