چنانچہ ان کی کتب سیرت النعمان اور’سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کے پہلے ۱۰۰ صفحے اس موضوع پر ہیں ، جن میں علامہ شبلی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) نے ’فقہ راوی‘ کی شرط جیسے اصولوں کو ہی نئے انداز میں ’درایت‘ کا نام دیتے ہوئے متعارف کروایا۔مسئلہ ’درایت‘ کے سلسلہ میں علامہ موصوف نے اپنی کتاب ’الفاروق‘ میں بھی اس موضوع پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے۔ ان کتابوں میں علامہ شبلی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) نے جو بحث کی ہے اس کی روشنی میں ہمارے سامنے ’ درایت‘ کے حوالے سے نقدروایت کے جونئے اصول سامنے آتے ہیں وہ کل بارہ ہیں ،جن کو تحقیق ِروایت کے وقت ان کے خیال میں ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے: 1۔کسی شخص کے متعلق وارد روایت کے بارے میں یہ دیکھا جائے کہ وہ اس کی افتاد طبع،سیرت،خیالات اور اس کے ماحول کے متعلق ثابت شدہ معلومات کے خلاف تو نہیں ؟ 2۔یہ دیکھا جائے کہ اگر روایت کسی غیر معمولی اور بعید از قیاس امر کے متعلق ہے تو کیا اس کے راوی اتنے زیادہ اور معتبر ہیں کہ محض ان کی شہادت پر ایسے امر کو تسلیم کیا جاسکے؟ 3۔رواۃ کے مختلف مدارج کو ملحوظ رکھا جائے، نہایت ضابط،نہایت معنی فہم اور نہایت دقیقہ رس راویوں کی روایات کو عام راویوں کی روایات پر ترجیح ہونی چاہئے۔بالخصوص ان روایتوں میں یہ فرق ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے جو فقہی مسائل یا دقیق مطالب سے تعلق رکھتی ہیں ۔ 4۔یہ دیکھا جائے کہ راوی جو واقعہ بیان کرتا ہے اس میں کس قدر حصہ اصل واقعہ ہے اور کس قدر حصہ راوی کا قیاس ہے۔ 5۔واقعہ کے اصل راوی کے تعلقات صاحب ِ واقعہ کے ساتھ کس قسم کے تھے؟ 6۔نفسِ واقعہ کی نوعیت کیا ہے ؟کیا وہ واقعہ اس ماحول میں پیش آسکتا ہے؟ 7۔اگر واقعہ کو صحیح مان لیا جائے توطبعاً جو نتائج اس پر مرتب ہونے چاہیں وہ ہوئے ہیں یا نہیں ۔ ان پہلوؤں پر’درایتی نقد‘ کے دیگر حاملین مزید یہ اضافہ کرتے ہیں کہ اگر زیر بحث روایت دینی لحاظ سے بھی اہمیت رکھنے والی ہو یعنی اس کی نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو، تو مزید چند پہلو پیش نظر رہنے چاہئیں : 1۔روایت قرآنِ مجید کی نصوص یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِ مشہورہ کے خلاف تو نہیں ۔ 2۔اس روایت کو تسلیم کرنے سے دین کے کسی مسلمہ اصول پر زد تو نہیں پڑتی۔ 3۔اس زمانے میں لوگوں کا میلان عام واقعہ کے مخالف تھا یا موافق؟ 4۔راوی نے واقعہ جس صورت میں ظاہر کیا ہے وہ واقعہ کی پوری تصویر ہے یااس امر کا احتمال ہے کہ روای اس کے ہر پہلوپر نظر نہیں ڈال سکا اور واقعہ کی تمام خصوصیتیں نظر میں نہ آسکیں ۔ 5۔اس بات کا اندازہ کہ زمانے کے متداد اور مختلف روایوں کے طریقہ ادا میں کیاکیا اور کس کس قسم کے تغیرات پیدا کردئیے ہیں ۔ بے شک محدثین کرام رحمہم اللہ نے علم حدیث کو ’روایت و درایت‘ دو قسموں میں تقسیم کیا ہے، لیکن درایت کو’ عقل‘ کے معنی میں لے کر خلافِ عقل روایات کو ردّ کردینے کا فکر برصغیر میں سب سے پہلے مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ (م۱۳۳۲ھ) نے ایجاد کیا، جبکہ لغت کے اعتبار سے درایت کا لفظ عقل کے معنی میں آتا ہے اور نہ ہی علمائِ لغت میں سے کسی نے لفظ ’درایت‘ کو اس معنی میں لیا ہے۔ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں تو لفظ ’درایت‘ صرف روایت کی تحقیق اور جانچ پڑتال کے لئے مستعمل ہے، جیساکہ ان تمام امور کی تفصیل پہلے باب کی تیسری فصل میں گذر چکی ہے۔ |