ہے اور یہی اصول جمہور اہل علم نے ذکر کیا ہے۔ ٭شیخ سلمان بن فہد العودہ حفظہ اللہ خبر واحد کے دلیل قطعی ہونے کے سلسلہمیں مکاتب اربعہ میں سے ہر مذہب کے فقہاء رحمہم اللہ کے اقوال کو پیش کرکے ثابت کرتے ہیں کہ مذکورہ بات امت کے سلف وخلف کے ہاں مقبول ہے: 1۔ فقہائے احناف: اِمام سرخسی رحمہ اللہ (م۴۹۰ھ) وغیرہ 2۔ فقہائے مالکیہ: قاضی عبدالوہاب رحمہ اللہ وغیرہ 3۔فقہائے شوافع: ابوحامد الاسفرائینی رحمہ اللہ ،قاضی ابوالطیب الطبری رحمہ اللہ ، ابواسحاق شیرازی رحمہ اللہ وغیرہ 4۔فقہائے حنابلہ: ابوعبداللہ بن حامد رحمہ اللہ ، ابویعلی رحمہ اللہ (م ۳۰۷ھ)، ابوالخطاب رحمہ اللہ وغیرہ۔ ٭ اِمام بلقینی رحمہ اللہ (م ۸۰۵ھ)نے الاصلاح میں لکھا ہے: نقل بعض الحفاظ المتاخرین عن جمع من الشافعیۃ والحنفیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ أنھم یقطعون بصحۃ الحدیث التی تلقتہ الأمت بالقبول ۷۳؎ ’’خبر واحد کو جب امت کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہوجائے تو وہ علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے۔‘‘ اس مسئلہ پر مزید معلومات کے لئے اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م۷۵۱ھ)کی کتاب مختصر الصواعق المرسلۃاور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ)کی کتا ب النکت علی ابن الصلاح کی پہلی جلد کی طرف مراجعت فرمائیں ۔ مزید چند احادیث جن کا شیخ الغزالی رحمہ اللہ نے انکار کیاہے یہ تھے وہ چند اقتباسات جن میں موصوف نے اپنی کمزور اور منفرد رائے کے ساتھ احادیث نبویہ کورد کردیا ہے۔ مزیدچند احادیث بھی ہیں ، جن سے متعلق شیخ نے کلام کی ہے، مثلاً ٭ حجاب سے متعلق احادیث ٭ مسجد میں عورت کی نماز سے متعلق احادیث ٭ وضو کرتے وقت بسم اللہ پڑھنے سے متعلق احادیث ٭ نذر سے متعلق احادیث ٭ لڑائی سے قبل دعوت اسلام سے متعلق احادیث ٭ زہد اور اللہ تعالیٰ کی پنڈلی سے متعلق احادیث ٭ قیامت کے دن مسلمانوں کے بچوں سے متعلق احادیث وغیرہ لیکن اختصار کی غرض سے ہم ان احادیث کو تبصرہ کیے بغیر انہیں چھوڑ رہے ہیں ۔ کتاب السنۃ النبویۃ بین أہل الفقہ وأہل الحدیث کا بالاختصار جائزہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ شیخ الغزالی رحمہ اللہ درج ذیل امور کے درمیان الجھے ہوئے ہیں : ٭ ان کی کلام میں علمی اسلوب کی بجائے خطابی اسلوب غالب ہے۔ |