نوجوان کے ساتھ خلوت میں متفق ہوجائے اور ان سے زنا کا وقوع ہوجائے۔ اس دلیل کے ساتھ کہ وہ عورت اس نوجوان کے خاوند ہونے پر رضا مند ہے او راس نوجوان نے اس عورت سے عقد کرلیا ہے، حالانکہ یہ سراسر زنا ہے۔ اگر نکاح ہے تو اس کی شروط، مہراورگواہ کہاں ہیں ؟ ’خبر واحد‘ کے حوالے سے محمد الغزالی رحمہ اللہ کا موقف ٭ محمد الغزالی رحمہ اللہ خبر واحد کے احتمالی اور ظنی ہونے کے ضمن میں رقم طراز ہیں : ومن الخیر أن نعلم أن الفرض لایثبت الا بدلیل قطعی وإن التحریم لا یثبت إلا بدلیل قطعی وأن الأدلۃ الظنیۃ لھا دلالۃ أقل من ذلک ۷۰؎ ’’ہمارے لئے بھلائی اس امر میں ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ فرض دلیل قطعی کے بغیر ثابت نہیں ہوتا اور تحریم بھی دلیل قطعی کے بغیر ثابت نہیں ہوتی۔ دلیل ظنی قوت میں دلیل قطعی سے کم درجہ رکھتی ہے۔‘‘ ٭ خبر واحد کا شیخ کے ہاں کیا مقام ہے اس حوالے سے ابھی مسئلہ رضاعت کے ضمن میں شیخ کا یہ قول گذر چکا ہے کہ ’’ ہم کئی بار یہ تاکید کرچکے ہیں کہ اخبار احاد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ محفوظ کتاب اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعارض ہوں اور دین میں وہم اور شک ڈالیں تو انہیں قبول کرلیا جائے۔‘‘ اس قسم کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ خبر واحد کو دین میں شریعت کا مقام دینے کے لیے تیار نہیں ۔ مذکورہ موقف پر تبصرہ موصوف نے یہاں (اپنے فہم کے مطابق) ایک اصولی قاعدہ ذکر کیا ہے کہ فرض دلیل قطعی (یعنی قرآنی آیت یا حدیث متواتر) کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔ گویا ان کی رائے میں خبر واحد دلیل قطعی نہیں ، بلکہ دلیل ظنی ہوتی ہے، لہٰذا خبر واحد سے فرض ثابت نہیں ہوسکتا۔ محمد الغزالی رحمہ اللہ نے بعینہٖ یہی اصول اپنی کتاب مستقبل الاسلام کے صفحہ ۷۴پر بھی ذکر کیا ہے۔ ہمارے خیال میں کہ ہم موصوف کے اس موقف پر کوئی تبصرہ خود کرنے کی بجائے شیخ کا اپنا کلام اس حوالے سے پیش کر دیں ، جس میں وہ اپنے اس موقف کی خود تردید فرما رہے ہیں ۔ ٭ وہ اپنی کتاب السنۃ النبویۃ میں ہی ایک مقام پر لکھتے ہیں : إن الحدیث الصحیح لہ وزنہ و العمل بہ فی فروع الشریعۃ لہ مساغ و قبول ۷۱؎ ’’صحیح حدیث ایک وزن رکھتی ہے اور فروع شریعت پر عمل کرنے میں صحیح احادیث کو قبول کیا جاتا ہے۔‘‘ ٭ اپنی اسی کتاب میں ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں : الواجب حقا أن یسمی اللّٰہ قبل الأکل فقد صحَّ قول رسو ل اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم:سم اللّٰہ وکل بیمینک وکل مما یلیک ۷۲؎ مذکورہ اقتباسات سے محسوس ہوتا ہے کہ شیخ موصوف بسااوقات بلا مقصد ہی کلام کرجاتے ہیں ، جیسا کہ ان کی کلام میں تناقص وتعارض واضح ہے۔ ایک طرف فرض کے ثبوت کے لئے دلیل قطعی کو ضروری قرار دے رہیہیں تو دوسری جانب حدیث صحیح کو بلا شرط قبول کرنے کی دعوت بھی دے رہے ہیں ۔ہم کہتے ہیں کہ صحیح اصول یہی ہے کہ فرض دلیل صحیح کے ساتھ ثابت ہوجاتا ہے، خواہ وہ دلیل قطعی ہو یا ظنی۔ خبر واحد کو جب امت کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہو جائے اور امت اس پر عمل کررہی ہو تو علم کا فائدہ دیتی |