Maktaba Wahhabi

298 - 432
الرائے کی تائید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسا کہ عورت کااپنی مرضی سے جہاں چاہے شادی کرنے کا مسئلہ ہے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ اہل حدیث اور اہل فقہ سے شیخ الغزالی رحمہ اللہ کی مراد کیا ہے؟کیونکہ اس مسئلہ میں بذات خود ان کی اپنی رائے متردد ہے۔۶۱؎ شیخ العودہ حفظہ اللہ نے جن دو روایات کی طرف مذکورہ عبارت میں اشارہ کیا ہے، ذیل میں ہم انہی مسائل کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ محمد الغزالی رحمہ اللہ کا اہل فقہ یا اہل حدیث میں سے کسی ایک گروہ سے کوئی ذاتی دلچسپی نہیں ، بلکہ اصل بات ان کے نظریات کی تائید ہے۔ 1۔ بیوہ عورت کے نکاح کے مسئلہ میں شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کا موقف شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ محدثین کرام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، جبکہ بیوہ اپنے رشتہ کے انتخاب میں اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے۔‘‘ یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد شیخ لکھتے ہیں کہ’’ اس حدیث کی موجودگی کے باوجود شوافع اور حنابلہ کے نزدیک باپ اپنی کنواری بیٹی پر نکاح کرنے کے سلسلے میں جبر کرسکتا ہے، جو سراسر عورت کی توہین اور اس کی شخصیت کی تحقیر ہے۔‘‘ ۶۲؎ شیخ کی مذکورہ عبارت کا جائزہ اس حدیث کو اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ)، اِمام مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ھ)، اِمام ترمذی رحمہ اللہ (م ۲۷۹ھ)، اِمام ابوداؤد رحمہ اللہ (م۲۷۵ھ)او راِمام نسائی رحمہ اللہ (م ۳۰۳ھ) نے روایت کیا ہے۔ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں شافعیہ اور حنابلہ کے حوالے سے جو بات کہی ہے، وہ محل نظر ہے کیونکہ اِمام احمد رحمہ اللہ (م۲۴۱ھ)سے اس مسئلہ میں دو روایتیں ثابت ہیں ۔ ایک روایت میں وہ نکاح کرنے میں بالغہ پر جبر کرنے کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس کی رضا مندی سے نکاح کیا جائے اوریہی دوسری روایت ہی راجح ہے اور اسی کواِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م ۷۲۸ھ) او راِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ھ)وغیرہ جیسے حنبلی علماء نے ترجیح دی ہے۔ البتہ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)کی نسبت سے شیخ کا کلام درست ہے کہ ان کے نزدیک باپ بالغہ لڑکی کی شادی اس کی رضا مندی کے خلاف کرسکتا ہے،۶۳؎ لیکن اس بارے میں ہم عرض کریں گے کہ یہ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)کا اجتہاد ہے، جبکہ اجتہاد درست بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔ اس مسئلہ میں درست بات وہی ہے جس پر اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م۷۵۱ ھ)اور خود شیخ الغزالی رحمہ اللہ ہیں کہ بالغہ پر جبر نہیں کیا جاسکتا، بلکہ نکاح کے لئے اس کی رضا مندی ضروری ہے۔ عورت کی توہین و تحقیر کے سلسلے میں شیخ نے جو بات کہی ہے، اس پر ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ یہ فتویٰ ان ائمہ کرام کا اجتہاد ہے۔ اس اجتہاد کی دلیل ان آئمہ کے پاس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا عمل ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صغر سنی میں ہی کر دی تھی۔ اگرچہ یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اجازت لی تھی یا کہ نہیں ۔ بہرحال یہ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م۲۰۴ھ)کا یہ اجتہاد ایک مرجوح رائے ہے، کیونکہ باپ کو جب اپنی بالغہ بیٹی کے مال میں اس کی رضا مندی کے بغیر تصرف کا اختیار حاصل نہیں ہے تو اس کی زندگی کے بارے میں یہ اختیار اسے کیسے دیا جاسکتا ہے۔ ۶۴؎
Flag Counter