Maktaba Wahhabi

297 - 432
ہیں او راپنی طرف سے ان کی من گھڑت تاویل کردیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ حساب و کتاب، جنت و جہنم اور عذاب قبر کی بھی تاویل کرتے ہیں اور باطنیہ و فلاسفہ کی مانند ان امور غیبیہ کو اوہام و خرافات قرار دیتے ہیں ۔ اس جیسے امور میں تاویل کا دروازہ کھولنا نعوذباللّٰہ من ذلک ارتدادِ کبری ہے۔ باقی رہا شیخ موصوف کا یہ کہنا کہ’’ جاپانیوں ، روسیوں اور امریکیوں وغیرہ کو جن کیوں نہیں لگتے‘‘، غیر درست ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان پر بھی جن حملہ کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں کثیر تعداد میں دماغی اور نفسیاتی مریض ہسپتالوں میں موجود ہیں ۔ چونکہ وہ لوگ جنوں کے وجود کے سرے سے ہی منکر ہیں ، اس لئے وہ جنوں کے حملوں کے بالاولی منکر ہیں ۔ وہ جنوں کے لمس کو مختلف دماغی اور نفسیانی امراض جیسے تشنج وغیرہ کا نام دیتے ہیں ۔ امر واقع میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے، جس سے معلوم ہو کہ ان لوگوں پر جن حملہ نہیں کرتے ہیں ۔ ٭ شیخ سلمان بن فہد العودہ حفظہ اللہ اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ ایک دفعہ ہم امریکہ گئے اور وہاں پر موجود پڑھنے والے سعودی طلبہ کی ایک کثیر تعداد نے بتایا کہ یہاں ہمارے پاس ایک شخص کو جن لگ گئے تھے، جو اس مریض شخص کی زبان سے کلام بھی کرتے تھے۔ لہٰذا اس شخص کا علاج کرانے کے لیے اس کو امریکہ سے سعودی عرب منتقل کردیا گیا ہے، تاکہ وہاں پر مشائخ و علماء وغیرہ سے اس کاعلاج کروایاجاسکے۔‘‘ ۵۹؎ شیخ غزالی رحمہ اللہ کے افکار کا ایک اور ناحیہ سے جائزہ محمد الغزالی رحمہ اللہ کے بارے میں اس فصل کی ابتداء میں شیخ سلمان بن فہد العودہ حفظہ اللہ کا یہ تبصرہ گذر چکا ہے کہ شیخ الغزالی رحمہ اللہ کی کتا ب السنۃ النبویۃ بین أہل الفقہ وأہل الحدیث میں ان کی مراد اہل فقہ یا اہل الحدیث سے کیا ہے؟ اس بارے میں ان کی مختلف عبارات میں خود تضاد اور تناقض ہے۔ ان کی عام کتب اور کتاب ہذا کے بابصیرت جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کے فکر سے کسی محترم فقیہ یا مکرم محدث کو اختلاف ہوجائے تو وہ اسے بے بصیرتی کے حاملین کے معنی میں لے کر’ اہل حدیث‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ،اور اگر ان کے فکر کی کسی بدعتی یا شاذ رائے کے حامل شخص کے قول سے تائید ہوتی ہو تو اسے وہ ’اہل فقہ‘ کہہ کر اسے اہل تدبر میں شمار کرتے ہیں ، خواہ اس فکر کے خلاف (دونوں صورتوں میں ) تمام فقہائے کرام کا اجماع ہی کیوں نہ ہو۔ گویا موصوف کا کوئی مذہب نہیں ، نہ وہ محدثین عظام رحمہم اللہ کے مؤید ہیں اور نہ ہی فقہاء کرام رحمہم اللہ کے زمرے میں خود کو شامل کرنا چاہتے ہیں ۔ ٭ شیخ سلمان بن فہد العودہ حفظہ اللہ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کے اس رویہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ شخ الغزالی رحمہ اللہ کی آخری ترین تصنیفات میں سے السنۃ النبویۃ بین أہل الفقہ وأہل الحدیث کو بطور خاص ذکر کیا جاتاہے، لیکن اس کتاب میں موصوف نے کہیں بھی اہل فقہ اور اہل حدیث سے اپنی مراد کو واضح نہیں کیا۔ ۶۰؎ ٭ شیخ العودہ حفظہ اللہ مزید لکھتے ہیں : ’’شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کی دیگرکتب کے مطالعہ سے یہ غموض مزید پیچیدہ ہوجاتاہے کیونکہ بعض مقامات پر اہل الحدیث سے ان کی مراد حدیث کی خدمت میں مصروف لوگ ہوتے ہیں ، جبکہ بعض مقامات پر اہل الحدیث سے ان کی مراد آئمہ ثلاثہ اِمام شافعی(م ۲۰۴ھ)،اِمام مالک(م۱۷۹ھ) اوراِمام احمد رحمہم اللہ (م ۲۴۱ھ)ہوتے ہیں ۔اس عنوان سے ان کی کیا مراد ہے، کوئی نہیں جانتا، کیونکہ بسا اوقات شیخ الغزالی رحمہ اللہ محدثین کرام رحمہم اللہ کی تائید کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ، جیساکہ نکاح کرنے میں باکرہ پر جبر کرنے کا مسئلہ ہے اوربسااوقات اہل
Flag Counter