قرار دیا جائے گا؟ ٭ شیخ محمود عبدالحلیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الاخوان المسلمون أحداث ضعف التاریخ میں شیخ حسن البنا رحمہ اللہ (م۱۳۶۸ھ)کے حوالے سے ایک قصہ نقل کیا ہے کہ ’’ وہ کسی شہر میں گئے اور ان کے حامیوں اور متبعین نے ان کا بھرپور انداز میں استقبال کیا، لیکن متبعین او رحامیوں میں سے ایک شخص کچھ دور پریشان حالت میں کھڑا تھا۔ شیخ حسن البناء رحمہ اللہ (م۱۳۶۸ھ)اس شخص کے پاس گئے اور حقیقت حال پوچھی۔ اس نے کہا کہ میری بیوی کو کبھی کبھی دورہ پڑ جاتا ہے۔ آج آپ کی آمد کے موقع پر بھی اس کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ وہ اس دورے کی حالت میں ہمیں مارتی پیٹتی اور بلند آوازیں نکالتی اور چیخ و پکار کرتی ہے۔ شیخ حسن البناء رحمہ اللہ (م۱۳۶۸ھ)نے اس آدمی کو کہا کہ ہمیں اپنے گھر لے چلو۔ جب وہ اس کے گھر کے پاس پہنچ گئے تو کہا کہ اندر جاؤ اور اپنی بیوی کو باپردہ ہوجانے کا حکم دو، پھر ہمیں اندر بلا لینا۔ اس شخص نے ایسے ہی کیا ۔ شیخ حسن البناء رحمہ اللہ (م۱۳۶۸ھ)اندر داخل ہوگئے اور اس عورت کو دم کیا۔ وہ عورت سختی سے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی۔لوگوں نے اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھا، لیکن اس کے ہاتھ پاؤں مارنے کی وجہ سے اس کے اوپر اوڑھی گئی چادر پھٹ گئی اور اس کے پاؤں اور پنڈلیوں کا کچھ حصہ ننگا ہوگیا تو عورت کہنے لگی: یہ حسن البناء ہیں ، جو مسلمانوں کے اِمام ہیں ، لیکن عورتوں کا ستر دیکھ رہے ہیں ،حالانکہ وہ شیخ حسن البناء رحمہ اللہ (م۱۳۶۸ھ) کو بالکل نہیں جانتی تھی۔ شیخ نے اپنا چہرہ پھیر لیااور اپنا دم جاری رکھا۔ جب عورت کی پنڈلی ننگی ہوتی، شیخ اس کو ڈھانپ دینے کا حکم دیتے اور مسلسل قرآنی آیات پڑھتے جاتے۔ حتیٰ کہ اس عورت سے جن بھاگ نکلا اور وہ صحیح سلامت ہوکر اٹھ کر بیٹھ گئی اور حیرت و استعجاب سے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے کہنے لگی کہ مجھے یہاں کون لایا ہے؟ اور میرے اردگرد یہ لوگ کیوں جمع ہیں ؟ ‘‘۵۳؎ مذکورہ واقعات تو فقط ایک مثال ہیں ، ورنہ اس معاملہ پر عینی شاہدین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہ مسئلہ بیان کا محتاج ہی نہیں ہے۔ تعجب اس امر پر ہے کہ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ جو ظاہر قرآن کے خلاف آنے کی بنیاد پر صحیح احادیث کورد کردیتے ہیں ،انہوں نے قرآن کے اس ظاہر سے نظر پھیرلی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ اَلَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَایَقُوْمُوْنَ إِلاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِی یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ﴾ ۵۴؎ کیا یہ آیت جنوں کے وجود اور اس کے انسانی جسم میں داخل ہونے پر نص صریح نہیں ہے۔ ٭ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہا آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: ((إن الشیطان یجری من ابن آدم مجری الدم)) ۵۵؎ ٭ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے کہ ہڈیاں ، گوبر اور لید وغیرہ جنوں کی خوراک ہے۔۵۶؎ ٭ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جن کو پکڑ لیا، لیکن بعد میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کی وجہ سے چھوڑ دیا اور فرمایا: ((لولا دعوۃ أخی سلیمان لاصبح موثقا یلعب بہ صبیان أھل المدینہ)) ۵۷؎ ’’اگر میرے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو صبح تک بندھا رہتا اور اہل مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیلتے۔‘‘ ٭ اس سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آنے والا قصہ مشہور ہے کہ شیطان انسانی شکل میں چور بن کر روز آتا اور مال غنیمت کرتا تھا۔۵۸؎ وجودِ جن اور وجودِ شیطان کا تعلق امور غیبیہ سے ہے، لہذا جنوں کا مشاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا انکار درست نہیں ۔ فلسفہ ٔ مغرب سے مرعوب متعدد دیندار لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس طرح کے امور غیبیہ سے متعلق مسائل میں شکوک و شبہات اور تردد کا شکار ہوجاتے |