بھی دلیل اس حقیقت کے منافی ثابت نہیں ہے۔‘‘۴۸؎ ٭ شیخ سلمان بن فہد العودہ حفظہ اللہ شیخ الغزالی رحمہ اللہ کے اس موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’تعجب کی بات تو یہ ہے کہ استاذ عبدالحلیم عویس بھی الشرق الأوسط اخبار میں شیخ الغزالی رحمہ اللہ کے اس نظریئے کی تائید کرتے نظر آتے ہیں ۔استاذ عبدالحلیم اپنی کلام کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ جمہور مسلمانوں کا یہی مذہب ہے کہ جن، جسم انسانی میں داخل نہیں ہوسکتے۔ میں کہتا ہوں کہ جمہور مسلمانوں سے شیخکی کیا مراد ہے ؟ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہر شخص اپنے موقف اور نظریے کو پیش کرنے کے بعد یہی کہتا ہے کہ یہ جمہور مسلمانوں کی رائے ہیں ۔ جو شخص بھی اس موقف کو جمہور مسلمانوں کا موقف قرا ردیتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ کسی ایک ہی کتاب کا نام بتادے جس میں صراحت ہو کہ یہ موقف جمہور مسلمانوں کا ہے۔ میری رائے میں اس موقف کے حاملین اس قسم کے دعوے کرکے علمی خیانت کا ثبوت دیتے ہیں ۔ شیخ موصوف نے اپنے اس منفرد موقف کی تائید میں کتاب و سنت حتیٰ کہ عقل سے بھی ایک دلیل تک پیش نہیں کی۔شیخ کے ذکر کردہ موقف سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلہ سے بالکل ناواقف اورلاعلم ہیں ۔ ۴۹؎ علماء کااصول ہے:’’عدم العلم بالشئ لیس علما بالعدم‘‘ یعنی کسی شے کا علم نہ ہو نا، اس شے کے عدم کے علم پر دلالت نہیں کرتا،کیونکہ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شے واقع ہوجاتی ہے ،لیکن بعض لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوپاتا۔ متعدد اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کو علم ثابت نہیں کیا جاسکتا، مگر حقیقت حال ان کا وجود ہوتا ہے۔ جیسا کہ کوئی شخص یہ طاقت نہیں رکھتا ہے کہ وہ اپنے علم یا عقل کی بنیاد پر جنوں کا وجود ثابت کرسکے؟ جنوں کے وجود پر موجود علمی وعقلی دلائل کا رد کرنا توممکن ہے، لیکن قرآن و حدیث سے جنوں کا وجود، اوصاف او رہیئت ثابتہ کا انکار کرناممکن نہیں ۔ ہم متعدد ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جنہوں نے جنوں کے ساتھ کلام کی یاجن ان کے ساتھ ہم کلام ہو ئے ہیں ، نیز جنوں کے متاثر بے شمار لوگوں کو بھی جانتے ہیں ۔ ٭ اِمام احمد رحمہ اللہ (م۲۴۱ھ)، ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ (م ۲۳۵ھ)اور دارمی رحمہ اللہ (م ۲۵۵ھ)وغیرہ نے نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لڑکا لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر دم کیا اور اس کو مارا تو اس کے اندر سے ایک جن نکلا۔‘‘۵۰؎ ٭اسی طرح ایک عورت کا قصہ معروف ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لڑکے کو لے کر آئی اور بتلایا کہ یہ لڑکا دن میں کئی مرتبہ بے ہوش ہوجاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کو اپنے سامنے بٹھایا اور اس کے منہ میں پھونک مار کرکہا: ’’اے اللہ کے دشمن نکل جا۔ میں اللہ کا رسول بول رہا ہوں ہوں ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ لڑکا ایسے ہوگیا، جیسے کبھی بیمار ہی نہ ہوا تھا۔‘‘۵۱؎ ٭ شیخ سلمان بن فہد العودہ حفظہ اللہ شیخ موصوف کے موقف پر مزیدتبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’ہمیشہ سے لوگ اس طرح کے واقعات و قصص بیان کرتے رہے ہیں کہ وہ جنوں سے متاثر ہیں ۔ یہ موضوع اگرچہ بہت طویل ہے، مگر ہمارے خیال میں موضوع کی مناسبت سے چند واقعات کو یہاں ذکر کرنا فائدہ سے خالی نہیں ۔ اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م ۷۲۸ھ) نے مجموع الفتاوی میں جنوں کو مارنے اور جنوں کی چیخ و پکار کے متعدد واقعات ذکر کئے ہیں ، جولوگوں کی ایک بڑی تعداد میں وقوع پذیر ہوئے۔ اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م ۷۲۸ھ) جیسے عالم دین نے ان واقعات کو لوگوں کی بڑی تعداد کی موجودگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وہ ان قصص و واقعات کے چشم دید گواہ ہیں ۔۵۲؎ اب ان واقعات کو کیسے خیالات و اوہام قرار دیاجاسکتا ہے؟ اور کیا شیخ الاسلام اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م ۷۲۸ھ)کو اس سلسلے میں جھوٹا |