Maktaba Wahhabi

294 - 432
مذکورہ موقف کا جائزہ مذکورہ حدیث کو اِمام مسلم(م۲۶۱ھ)، مالک(۱۷۹ھ)، ابوداؤد(م۲۷۵ھ)، ترمذی(۲۷۹ھ) او راِمام نسائی رحمہم اللہ (م۳۰۳ھ) نے روایت کیاہے۔ کیا یہ حدیث کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے؟ ہماری سمجھ سے بالا ہے۔اگر تو شیخ کا مقصود یہ ہے کہ قرآن کی آیت کریمہ: ﴿وَأَخَوَاتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ﴾ ۴۶؎ میں رضعات (گھونٹوں ) کی تعداد عمومی طور پر بغیرکسی تعیین کے بیان کی گئی ہے، تو اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ آیت قرآنی مجمل ہے اور اس حدیث نے اس اجمال کی وضاحت کردی ہے کہ وہ کم از کم پانچ رضعات ہیں جن سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے اور اگر شیخ کا مقصود یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہوجانے کے باوجود اس آیت کی تلاوت کی جارہی تھی، تو بھی اس میں اشکال والی کوئی بات نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس دس رضعات والی آیت کا نسخ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات میں ہوا ہو اور کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس نسخ کا علم نہ ہوسکا ہو اور وہ اس آیت کی تلاوت کرتے رہے ہوں ، لیکن جب ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس آیت کے منسوخ ہونے کا علم ہوگیا تو انہوں نے اس کی تلاوت کرناترک کر دی۔ یہ بات یاد رہے کہ جس طرح کوئی آیت نازل ہونے کے فوراً بعد لوگوں میں نہیں پھیلتی بلکہ تدریجالوگوں تک پہنچتی تھی، اسی طرح جب کوئی آیت منسوخ ہوجاتی ہے تو اس کا علم بھی بالتدریج ہی تمام لوگوں تک منتقل ہوتا تھا۔ رہا اِمام مالک رحمہ اللہ (۱۷۹ھ) کا یہ قول کہ ’’لیس علی ھذا العمل‘‘ یہ صحیح ہے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انہوں نے حدیث کا انکار کردیاہے ،جیسا کہ شیخ الغزالی رحمہ اللہ نے تبصرہ کیا ہے کہ :ورفض الحدیث،کیونکہ حدیث کا غیر معمول بہ ہونا اور شے ہے اور اس کا انکار ایک دوسری شے ہے، جیساکہ اس کی مفصل بحث دوسرے باب میں گذر چکی ہے۔ ہم مزید یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ اِمام مالک رحمہ اللہ (۱۷۹ھ)کا کہنا کہ یہ روایت ’غیر معمول بہا‘ ہے، تو یہ فقط ان کی ذاتی رائے ہے، جس میں وہ منفرد بھی نہیں ہیں ، بلکہ پانچ رضعات سے حرمت کے ثبوت پراِمام مالک رحمہ اللہ (۱۷۹ھ) کے ساتھ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مثلا سیدناابن مسعود رضی اللہ عنہ ، عائشہ رضی اللہ عنہا ، ابن الزبیر رضی اللہ عنہ اور علماء کرام کی ایک جماعت نے بھی موافقت کی ہے۔ 8۔ جنوں کے وجود کے انکار کے بارے میں شیخ کا موقف شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ جنوں کے قائل علماء پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’کیا جنات کو صرف مسلمانوں پر ہی سوار ہونے کی تربیت دی گئی ہے۔ جرمن ،جاپانی اور امریکی حضرات پر جن سوار کیوں نہیں ہوتے؟ مسلمانوں کی جانب سے اس قسم کے اوہام کا عام ہوجانا، شہرت اسلام کوبدنام کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ جب مختلف جرائد نے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی جانب سے ایک دیہاتی کے جسم سے بوذی جن نکالا اور پھر اس جن کے مسلمان ہونے کا واقعہ نقل کیا، تو میں قراء کے چہروں پر دین اور علم کے درمیان لمبی مسافت دیکھ رہا تھا۔‘‘ ۴۷؎ شیخ کے مذکورہ موقف کا جائزہ ٭ انسان کے جسم میں جن داخل ہوجانے کے بارے میں اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م۷۲۸ھ)فرماتے ہیں : ’’تمام علماء اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ جن، انسان کے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں میں سے کوئی شخص بھی اس حقیقت کا منکر نہیں ہوسکتا۔ جو شخص اس حقیقت کا انکار کرتا ہے توگویا کہ وہ شخص شریعت اسلامیہ ہی کو جھٹلا رہا ہے۔ ادلہ شرعیہ میں سے ایک
Flag Counter