Maktaba Wahhabi

292 - 432
5۔ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کا ایک اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض شیخ موصوف فرماتے ہیں : ’’ ہمیں اس روایت پر بھی تعجب ہے، جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص پر نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی باندی ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ زنا کرنے کی تہمت لگائی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ اس متہم شخص کو قتل کردیں ۔ جب علی رضی اللہ عنہ گئے تو دیکھا کہ وہ شخص تو مقطوع الذکر ہے، لہٰذا علی رضی اللہ عنہ واپس آگئے اور اس کو قتل نہ کیا۔ شیخ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کسی شخص پر تہمت کی تحقیق کئے بغیر اس پر حد نافذکردی جائے اور اس کو دفاع کا حق بھی نہ دیا جائے۔‘‘ ۳۸؎ مذکورہ حدیث پر شیخ رحمہ اللہ کے’ ارشادات‘کا جائزہ مذکورہ حدیث کواِمام مسلم رحمہ اللہ (م۲۶۱ھ) ۳۹؎ اور احمد رحمہ اللہ (م۲۴۱ھ)۴۰؎ وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی کلام نہیں ہے۔ ٭ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ھ)اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں : لیس فی إسنادہ من یتعلق علیہ ۴۱؎ ’’اس حدیث کی اِسناد میں کوئی راوی بھی ایسا نہیں ہے جس پر جرح کی جائے۔‘‘ ٭ اس حدیث پر وارد اشکال کا جواب دیتے ہوئے اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م۷۵۱ھ) فرماتے ہیں : ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقتاً اس کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں کیا تھا، بلکہ آپ کا مقصود اس کوڈرانا دھمکانا تھا، تاکہ وہ دوبارہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے پاس نہ آئے۔ جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام نے دو عورتوں کے درمیان بچے کے جھگڑے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ چھری لاؤ ! میں اس بچے کو آدھا آدھا کردیتا ہوں ۔ اس موقع پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے حقیقت کلام کو مراد نہیں لیا تھا۔‘‘۴۲؎ ٭ شیخ سلمان بن فہد العودہ حفظہ اللہ اس حدیث پر وارد شدہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اس حدیث کا نہایت واضح جواب یہ ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس گستاخی اور جرأت پر اس کو تعزیراً قتل کرنے کا حکم دیا تھا اور تعزیراً قتل کرنا مصلحت کے تحت ہوتا ہے،حد کا نفاذ نہیں ۔ کیونکہ اس شخص کا ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے جانے کا تذکرہ لوگوں میں عام ہوچکا تھا اور وہی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے متعلق بری کلام کا سبب بنا تھا۔ جب حقیقت حال واضح ہوگئی کہ وہ شخص مقطوع الذکرہے، تو معاملہ ختم ہوگیا ہے۔‘‘ ۴۳؎ 6۔ حدیث ((نہی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم عن النعی)) کے بارے میں شیخ الغزالی رحمہ اللہ کا موقف شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’عقل سلیم اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ فوتگی کا اعلان کرنا حرام ہے۔ بعض طلبہ نے اس سلسلے میں مجھ سے سوال کیا، تو میں نے جواب دیا کہ اس اعلان سے مراد وہ اعلان ہے، جس میں تفاخر ہو۔ فقط اعلان کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ طلاب نے سنن ترمذی اورسنن ابن ماجہ میں موجود حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت پیش کی کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بوقت وفات فرمایاتھا کہ:میری موت کا اعلان نہ کرنا، کہیں ایسانہ ہو کہ یہ وہی اعلان بن جائے جس سے نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے منع کیا تھا۔‘‘اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد شیخ الغزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’آج کل نوجوانوں کے درمیان متعدد ایسی احادیث گردش کر رہی ہیں ، جن کی اسانید تو صحیح ہیں ، مگر ان کا متن ناقابل قبول ہے۔ ‘‘
Flag Counter