Maktaba Wahhabi

291 - 432
اگر اس قصہ سے کوئی مسئلہ مستنبط نہیں ہوتا، تو پھر اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام اور چیونٹی کا قصہ کیوں ذکر کیا ہے؟ نیز یوسف علیہ السلام کا طویل قصہ ذکرکرنے کا کیا فائدہ تھا، کیونکہ ( شیخ موصوف کے اپنے موقف کے مطابق) اس سے بھی کوئی مسئلہ مستنبط نہیں ہوتا۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ شیخ کے تلامذہ شکوک و شبہات سے بچ جائیں گے اورمستشرقین ان کے موقف کو لے کر قرآن اور سنت دونوں پر اپنے شکوک و شبہات کو تقویت نہیں دیں گے؟ ٭ شیخ ربیع مدخلی حفظہ اللہ ، شیخ الغزالی رحمہ اللہ کے مذکورہ موقف کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’حضرت موسی علیہ السلام کا ملک الموت کے ساتھ مذکورہ واقعہ پیش آناقرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہے، اس پر ایمان لانا اور اس میں شک کرنے سے بچنا ضروری اور واجب ہے ۔ اس قصہ میں شک کرنے سے دیگر متعدد قصوں میں بھی شک کرنا لازم آئے گا، جس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیخ موصوف اپنے دل میں الجھن محسوس کرتے ہیں او ران کی عدالت کے سلسلہ میں شک کا شکار ہیں ۔ شیخ سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ الجھن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے پیدا ہوئی ہے یا اس حدیث کے راوی إمام الائمۃ فی الحدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے؟ نیز براہ کرام ہمیں یہ بھی بتائیں کہ وہ کون سے صحابہ رضی اللہ عنہم ، ائمہ اربعہ اور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ ہیں ، جنہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحت میں اختلاف کیا ہے؟‘‘۳۳؎ ٭ شیخ ربیع مدخلی حفظہ اللہ مزید فرماتے ہیں : ’’مذکورہ حدیث سنداً ومتناً صحیح ثابت ہے،بلکہ صحت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہے، کیونکہ اس حدیث کو بخاری و مسلم دونوں نے بالاتفاق روایت کیاہے۔ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام یا کسی دوسرے شخص کا موت کو ناپسند کرنا درجہ نبوت کے منافی ہے؟ جس نے شیخ کے دل میں شک پیدا کردیا۔ اگر اس قصہ نے شک پیدا کیا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان سے متعلق موصوف کا کیا موقف ہے: ﴿فَلَمَّا أَتَاھَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیِٔ الْوَادِی الْأَیْمَنِ فِیْ الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَکِۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ أَنْ یَّمُوْسیٰ إِنِّی اَنَا اللّٰہ رَبُّ الْعَالَمِیْن وَأَنْ أَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَآھَا تَھْتَزُّ کَأَنَّھَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ﴾ ۳۴؎ کیونکہ جس ’ عقلی علت‘ کی بنیاد پر وہ مذکورہ قصے کو رد کر رہے ہیں ،وہی ’علت‘ اس آیت میں بھی موجود ہے۔دراصل شیخ موصوف نے یہاں محدثین رحمہم اللہ کے فہم پر زہریلاتیر چھوڑا ہے کہ محدثین سطحی فکر کے مالک ہوتے ہیں اور احادیث کی مخفی علتوں سے ناواقف ہوتے ہیں ، لیکن مذکورہ دلائل سے واضح ہوجاتا ہے کہ سطحی فکر کا مالک کون ہے؟‘‘۳۵؎ ٭ شیخ الغزالی رحمہ اللہ اپنی مذکورہ کے کلام کے بعد رقم طراز ہیں : والعلۃ یبصرھا المحققون و تخفی علی اصحاب الفکر السطحی۳۶؎ ’’مخفی علت کو محققین پہچان لیتے ہیں جبکہ سطحی فکر کے لوگوں پر وہ مخفی رہتی ہے۔‘‘ ٭ شیخ ربیع مدخلی حفظہ اللہ موصوف کی مذکورہ عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ہمارا شیخ موصوف سے سوال یہ ہے کہ وہ مخفی علت کونسی ہے؟ اور اس کو پہچاننے ولے محققین کون لوگ ہیں ؟ اور سطحی سوچ رکھنے والے کون لوگ ہیں ؟ جن پر یہ علل مخفی رہ جاتی ہیں ۔ اس کا جواب غالبا یہی ہے کہ شیخ کے ہاں سطحی فکر کے حامل لوگ اِمام بخاری رحمہ اللہ (م۲۵۶ھ)، اِمام مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ھ) اور اِمام نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ھ)وغیرہ جیسے فقہائے محدثین اور آئمہ کرام رحمہم اللہ ہیں ، جنہوں نے اپنی پوری زندگی خدمت حدیث میں وقف کردی۔ شیخ ان کو سطحی لوگ اس لئے کہہ رہے ہیں ، کیوں کہ انہوں نے اس حدیث کو رد کرنے والوں کو ملحد قرا ر دیا ہے۔‘‘ ۳۷؎
Flag Counter