Maktaba Wahhabi

290 - 432
اتباع حدیث کے وجوب کے شرعی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی اس کے مؤید ہیں کیونکہ قرآن مجید کی متعدد آیات ایسی ہیں ، جن کو سنت کے بغیر سمجھنا ممکن ہی نہیں ۔ شیخ موصوف کے کلام ’’ محدثین دیگر کاموں میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے وہ وحی کا مشروب پینے سے عاجز ہیں ‘‘ کے حوالے سے عرض ہے کہ اہل حدیث اگردیگر کاموں میں مصروف ہیں توکیا آپ کی رائے میں وہ لہو ولعب میں پڑے ہوئے ہیں ؟ یا فلسفہ اور منطق کو تھامے ہوئے ہیں ؟ نہیں ! الحمدﷲاہل حدیث کی جماعت ہی ایسی جماعت ہے جو فہم قرآن و سنت میں سب پر ممتاز ہیں اور حدیث وسنت کا ہر دم دفاع کررہی ہے، نیز اسے بحفاظت اگلی نسلوں تک پہنچارہی ہے۔ ہمارا شیخ سے سوال ہے کہ کیا محدثین کرام رحمہم اللہ نے ان روایات کو (جو بزعم ِشیخ قرآن کے ظاہر کے خلاف ہیں ) نقل کرکے اسلام کے حق میں کوئی جرم اور گناہ کرلیا ہے؟ جس وجہ سے شیخ موصوف محدثین کرام رحمہم اللہ پر تنقید فرمارہے ہیں ۔ 4۔ ملک الموت کی آنکھ پھوڑنے والی حدیث کے بارے میں شیخ رحمہ اللہ کا موقف شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’میں الجزائر میں تھا کہ ایک طالب علم نے مجھ سے سوال کیاکہ کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت ان کی روح کو قبض کرنے کے لئے آئے تو انھوں نے ملک الموت کی آنکھ پھوڑ دی تھی؟ میں نے (دل میں الجھن محسوس کرتے ہوئے) اس طالب علم کو جواب دیا: کہ اس حدیث کا کیافائدہ؟ نہ تو اس حدیث سے عقیدے کا کوئی مسئلہ ماخوذ ہے اور نہ ہی یہ حدیث کسی عمل کے ساتھ مربوط ہے، جبکہ اُمت اسلامیہ کی صورتحال آج یہ ہے کہ مشکلات و الجھنوں میں پھنسی ہوئی ہے۔‘‘ ۳۰؎ شیخ موصوف مذکورہ حدیث کی صحت کے بارے میں اپنے ’ارشادات‘ یوں پیش کرتے ہیں : ’’یہ حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جن کی صحت میں بعض لوگوں نے اختلاف کیا ہے اور میں اپنے دل میں سوچتا ہوں کہ کیا واقعی یہ حدیث صحیح ہے؟ لیکن اس کا متن شک پیدا کررہا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام موت کوناپسند کر رہے تھے اور اپنی زندگی مکمل ہوجانے کے باوجود اللہ کی ملاقات سے گریز کررہے تھے، حالانکہ اللہ کے نیک بندوں سے یہ عمل واقع ہونا بعید از قیاس ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ((من أحب لقاء اللّٰہ أحب اللّٰہ لقاء ہ)) لہٰذا انبیاء کرام سے یہ کیسے ممکن ہے؟ خصوصاً جبکہ موسیٰ علیہ السلام اولوالعزم نبیوں میں سے تھے؟ میری عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہو؟ شاید اس حدیث کا متن معلول ہے۔‘‘۳۱؎ مذکورہ موقف پر تبصرہ ٭ شیخ سلمان بن فہد العودہ حفظہ اللہ ، شیخ موصوف کے مذکورہ موقف پر برہمی سے تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’شیخ الغزالی کا طالب علم کو مذکورہ انداز سے جواب دینا کیا استخفاف حدیث کے دائرہ میں نہیں آتا ہے؟ پھر یہ کہنا کہ ’’یہ حدیث نہ تو کسی عقیدہ کے مسئلہ کے ساتھ متصل ہے اور نہ ہی کسی عمل سے مرتبط ہے‘‘ کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور حدیث نبوی کااستخفاف نہیں ! حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو کوئی بات بھی وحی الٰہی کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ شیخ موصوف سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ اس اسرائیلی شخص کے ساتھ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے قصہ پر کیا موقف رکھتے ہیں ، جس کو موسی علیہ السلام نے گھونسا مار کر ہلاک کردیا تھا؟ موصوف کا مذکورہ انداز کلام قرآن مجید کے متعدد قصوں کے استخفاف کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ میرے نزدیک شیخ کا موقف بذات خود ایسا ہے کہ جس سے نہ کسی عقیدے کا مسئلہ ماخوذ ہوتا ہے او رنہ ہی کسی عمل کے ساتھ مرتبط ہے۔احادیث کے متعدد فوائد ہیں جن میں سے ایک فائدہ ایمان کی آزمائش بھی ہے کیونکہ متقین ایمان بالغیب رکھتے ہیں ۔‘‘۳۲؎
Flag Counter