جب انہوں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں قتل کئے گئے مشرکین کو کنوئیں کے پاس جاکر ان کے نام سے لے کر پکارا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا انکار کردیا کہ یہ غلط ہے، کیونکہ اللہ فرماتے ہیں:﴿إِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتیٰ وَلاَ تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاء﴾ ‘‘ شیخ کے مذکورہ موقفکا جائزہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مانند دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم بھی فقہ،حدیث،ادب اور نصوص قرآن سے بخوبی واقف تھے۔ بدر کے کنوئیں والی اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے وہ صحابہ بھی ہیں ، جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فقیہ اور عالم تھے، ان میں سے سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ بھی تھے جن کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم اور فقہ کی گواہی دی او ران کوحبرالأمۃ کا لقب عطا کیا۔‘‘۲۴؎ اسی طرح اس حدیث کے راویوں میں سے فقہاء و محدثین صحابہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ، ابن عمر رضی اللہ عنہ اورانس رضی اللہ عنہ بھی ہیں ، جو سب کے سب کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع اور جاننے والے تھے۔ اگر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوجاتا کہ اس حدیث کو روایت کرنے میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شریک ہیں ، تو وہ ہرگز اس کی مخالفت نہ کرتیں ۔ ٭ شیخ ربیع مدخلی حفظہ اللہ ، شیخ الغزالی رحمہ اللہ کے مذکورہ موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’صحیح بات تو یہ ہے کہ مذکورہ روایت دفاع کی محتاج ہی نہیں ہے، کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا، ان مُردوں کو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا دیا تھا۔ لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا معارضہ ناقابل قبول ہے۔‘‘۲۵؎ ٭ شیخ سلمان بن فہد العودہ حفظہ اللہ ، شیخ الغزالی رحمہ اللہ کے مذکورہ موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ شیخ الغزالی رحمہ اللہ گویا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر یہ اعتراض کررہے ہیں کہ وہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام نہیں کرتی تھیں ۔ جمہور اہل علم و فقہاء رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے کہ مذکورہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ یہ حکم انہی کے ساتھ خاص ہے۔‘‘۲۶؎ ا لفاظِ قرآن پر مطلع ہونا اور محدثین کرام کا عجز؟ ٭ شیخ الغزالی رحمہ اللہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے بارے میں نازیبا کلمات کہتے ہوئے لکھتے ہیں : وکل ما نحرص علیہ نحن شد الانتباہ إلی الفاظ القرآن ومعانیہ،فجملۃ غفیرۃ من أھل الحدیث محجوبون عنھا مستغرقون فی شؤون أخری تعجزھم عن تشرب الوحی ۲۷؎ ’’ہمارا انتہائی مقصود الفاظِ قرآن اور اس کے معانی پر مطلع ہونا ہے، جبکہ محدثین ایک ایک جملہ سے محروم ہیں اور دیگر کاموں میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے وہ وحی کا مشروب پینے سے عاجز ہیں ۔‘‘ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کی یہ بات درست ہے کہ قرآن کے معانی و الفاظ کا اہتمام کرنا عظیم الشان عمل ہے، لیکن موصوف یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ قرآن نے ہی سنت پر عمل کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔ کیا قرآن مجید نے سنت کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم نہیں دیا؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَبَیْنَھُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ ۲۸؎ ہم شیخ موصوف کے خدمت میں ادباً عرض کریں گے کہ کیا شیخ قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ نہیں پڑھتے: ﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا﴾ ۲۹؎ |