نہیں کہ وہ محدثین کرام رحمہم اللہ اور فقہائے عظام رحمہم اللہ کی قائم کردہ’ علت و شذوذ‘ کی تعریفات کا عملی مثالوں پر انطباق کرسکیں ۔‘‘ ۱۷؎ شاذ کی تعریف شاذ کی متعدد تعریفات ہیں ، جن میں سے بہترین تعریف اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں : لیس الشاذ من الحدیث ان یروی الثقۃ مالایروی غیرہ، انما الشاذ ان یروی الثقۃ حدیثا یخالف ماروی الناس۱۸؎ ’’شذوذیہ نہیں ہے کہ ثقہ راوی ایسی حدیث روایت کرے جو اس کے غیر نے نقل نہیں کی ہے، بلکہ شذوذ یہ ہے کہ ثقہ راوی ایسی حدیث نقل کرے جو دیگر لوگوں کی نقل کردہ حدیث کے مخالف ہو۔‘‘ معلول کی تعریف حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ھ) اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں : ’’حدیث میں کوئی ایسا سبب پایا جائے جو اس کی صحت کو گدلا کردے باوجودیکہ ظاہری طور پر وہ حدیث صحیح ہو۔ ‘‘۱۹؎ فقہاء رحمہم اللہ اور محدثین رحمہم اللہ کی بیان کردہ شاذ او رمعلول حدیث کی تعریفات سے معلوم ہوا کہ اس میں ’’صحیح احادیث کی قرآن سے مخالفت‘‘ والا اصول کہیں مذکور نہیں ہے، جسے شیخ الغزالی رحمہ اللہ نے اپنا رکھا ہے اور صحیح احادیث کے ساتھ مخالفت والا رویہ اپنائے ہوئے ہیں ۔ احترامِ انسانیت اور عدل و مساوات شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ فقہ حنفی احترامِ انسانیت اور عدل و مساوات کے زیادہ قریب ہے۔ کیا اس عدل و مساوات کا یہ مطلب ہے کہ کفر و ایمان کو مساوی کردیا جائے اور کافروں اور مومنوں کے درمیان فرق مٹا دیا جائے؟جبکہ قرآنِ مجید مسلمانوں اور مجرموں کو برابر قرار نہیں دیتا: ﴿أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْن﴾ ۲۰؎ درحقیقت کافر کی کوئی حرمت نہیں ہے اور جو معاہد اور ذمی کو محدود حرمت دی گئی ہے، وہ اس لئے ہے کہ اس نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے ذمہ میں داخل کرلیا ہے، لیکن کیا کسی ذمی کے مرجانے پر ہم اس کا جنازہ پڑھیں گے؟ اس کومسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں گے ؟اور اس کے لئے استغفار کریں گے ؟ اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَاتُصَلِّ عَلیٰ اَحَدٍمِّنْھُمْ مَاتَ اَبَدًا﴾ ۲۱؎ ، اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّمَاالْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ﴾ ۲۲؎ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کو بخاری(م۲۵۶ھ)، ترمذی(م۲۷۹ھ)،نسائی(م۳۰۳ھ)، دارمی(۲۵۵ھ) اور عبدالرزاق رحمہم اللہ (م۲۱۱ھ) نے روایت کیا ہے اور متعدد روایات اس کی شاہد موجود ہیں ۔ 3۔ بدر کے کنوئیں پر مقتول مشرکین سے خطاب والی حدیث کے بارے میں شیخ کا موقف شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وأم المؤمنین عائشۃ،فقیھۃ محدثۃ أدیبۃ،وھی واقفۃ عند نصوص القرآن،ترفض ادنی تجاوز لھا، وعند ما سمعت أن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم وقف علی حافۃ البئر التی دفن المشرکون بھا ینا دیھم بأسماء ھم کان لھا تعلیق جدیر بالتدبر۲۳؎ ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک فقیہ محدث اور نصوص قرآن سے باخبر خاتون تھیں اور قرآن پر ادنی سا تجاوز بھی مسترد کردیتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ |