Maktaba Wahhabi

287 - 432
قرآن میں مرد، عورت کی ایک ہی دیت مذکور ہے۔ عورت کے خون کو سستا اور اس کے حق کو ہلکا سمجھنا باطل اور ظاہر کتاب کے خلاف ہے۔‘‘ شیخ کے مذکورہ موقف پر تبصرہ تمام فقہاء رحمہم اللہ (محققین و غیر محققین) کا عورت کی دیت آدھی ہونے کے اس حکم پر اجماع ہے اور اس سلسلہ میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ٭ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ) فرماتے ہیں: ’’سلف و خلف اہل علم میں سے کوئی بھی اس حکم کا مخالف نہیں ہے اور سب کا اتفاق ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف حصہ ہے، جو کہ ۵۰ اونٹ بنتے ہیں ۔ عورت کو قتل کرنے والا خواہ مرد ہو، عورت ہو یا ایک جماعت ہو ورثاء کی جانب سے دیت اختیار کرلینے کی صورت میں آدھی دیت ہی دینا ہوگی۔‘‘۱۲؎ البتہ زخموں کی دیت مرد اور عورت دونوں کی مساوی ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ٭ ابوبکر ابن منذر رحمہ اللہ (م ۷۳۳ھ) فرماتے ہیں: ’’تمام فقہاء رحمہم اللہ کا اجماع ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کا آدھا حصہ ہے۔ ‘‘۱۳؎ ٭ اِمام ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ھ)فرماتے ہیں : ’’تمام اہل علم رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ قتل خطا میں ۱۰۰ اونٹ دیت ہے جبکہ عورت کی دیت ۵۰ اونٹ ہے۔‘‘ ٭ اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م ۷۲۵ھ)نے بھی بات کی تائید کی ہے۔۱۴؎ ٭ اِمام ابوالقاسم الخرقی رحمہ اللہ (م ۳۳۴ھ)فرماتے ہیں: ’’آزاد مسلمان عورت کی دیت آزاد مسلمان مرد کی دیت کا آدھا حصہ ہے۔‘‘۱۵؎ ٭ شیخ ربیع مدخلی حفظہ اللہ ، محمد الغزالی رحمہ اللہ کی مذکورہ کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’فقہاء اُمت رحمہم اللہ اور محدثین کرام رحمہم اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان عورت کی دیت مسلمان مرد کی دیت کا نصف حصہ ہے جبکہ شیخ الغزالی رحمہ اللہ اپنی لاعلمی میں اس متفق علیہ حکم کو فقط محدثین رحمہم اللہ کی جانب منسوب کررہے ہیں ، تاکہ ان پر جھوٹ اور مخالفت قرآن کی تہمت لگا سکیں ،لیکن اللہ تعالیٰ نے شیخ محمد کے عیوب کو کھول دیا ہے تاکہ عام مسلمان اس گمراہ کن موقف سے بچ سکیں ۔‘‘ ۱۶؎ خبر واحد میں مخفی علت اور احترام انسانی کا فلسفہ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ خبر واحد بسااوقات صحیح سند ہونے کے باوجود کسی مخفی علت کی بناء پر ضعیف ہوجاتی ہے۔ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ)فرماتے ہیں کہ کفار میں سے جو ہم سے لڑائی کرے گا، ہم بھی اس سے لڑائی لڑیں گے اور معاہدہ وذمی کے قاتل سے قصاص لیا جائے گا۔اس بنیاد پر((لا یقتل مسلم فی کافر)) والی حدیث کو رد کردیا جائے گا اگرچہ اس کی سند صحیح ہے، کیونکہ اس حدیث کا متن مخالف نص قرآنی ﴿ النفس بالنفس﴾ کی وجہ سے معلول ہے اورہم دیکھتے ہیں کہ فقہ حنفی احترام انسانی کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ ٭ شیخ ربیع مدخلی حفظہ اللہ ، شیخ الغزالی رحمہ اللہ کے مذکورہ قول پرتبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’صحیح بات تو یہ ہے کہ شیخ الغزالی، فقہاء کرام رحمہم اللہ اور محدثین عظام رحمہم اللہ کی جانب سے پیش کیے گئے ’علت و شذوذ‘ کے تصور کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اپنے من پسند اصولوں کو ہی محدثین رحمہم اللہ و فقہاء رحمہم اللہ کے اصول قرار دیتے ہیں ۔مزید برآں شیخ موصوف میں اتنی علمی طاقت ہی
Flag Counter