Maktaba Wahhabi

286 - 432
روایت ِ صحیحہ اور قرآن میں تعارض سے متعلق شیخ کامنہج سابقہ حدیث ذکر کرنے کے بعد شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ہم کیا کہہ سکتے ہیں ؟ راوی سے غلطی بھی ہوسکتی ہے، خواہ وہ راوی جلالت عمر میں ہی کیوں نہ ہو اور میرے پاس وہی منہج ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا منہج تھا کہ کتب صحاح کو قرآن پر پیش کیا جائے کیونکہ قرآن ہر غلطی سے محفوظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایات کے قبول و رد کے سلسلے میں فقہاء نے جو اصول وضع کئے ہیں ان میں بنیادی طور پر قرآن پر اعتماد کیا ہے۔ اگر کوئی روایت قرآن کے موافق ہوتی تو اس کو قبول کرلیتے ورنہ قرآن پر ہی عمل کرتے۔‘‘ ۵؎ یہ کلام کئی اعتبار سے محل نظر ہے: 1۔ بعض رواۃ سے غلطی ہوجانا کوئی بعید از قیاس امر نہیں ہے، لیکن مذکورہ حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی غلطی نہیں کی، کیونکہ اس حدیث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور روایت کیا ہے۔ لہٰذا ان تمام صحابہ رضی اللہ عنہم پر وہم او رغلطی کا حکم لگانا بعید بلکہ محال ہے۔۶؎ 2۔ وہ صحیح احادیث جن کو اُمت نے تلقی بالقبول سے نوازا ہے، فقہاء کرام رحمہم اللہ اور محدثین عظام رحمہم اللہ سمیت تمام اہل علم نے ان کی صحت پر اتفاق کیاہے۔ اب امت اسلامیہ میں سے کسی شخص کے لیے جائز نہیں وہ نئے قواعد و ضوابط گھڑے، تاکہ ان کے خلاف آنے والی صحیح احادیث نبویہ کو رد کیا جاسکے۔۷؎ 3۔ ائمہ فقہ کا کام ہے کہ وہ صحیح احادیث کی تشریح وتعبیرپیش کریں ، کیونکہ ان کے اجتہادی قواعد و اصول قرآن و سنت مطہرہ دونوں سے ماخوذ ہیں ۔ اس لیے آئمہ فقہ و حدیث کا متفقہ عقیدہ ہے کہ صحیح حدیث قرآن کے مخالف ہو ہی نہیں سکتی۔۸؎ مزید برآں قرآن کریم کے اجمالات کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر سمجھنا اور ان کی تفاصیل کو پیش کرنا ناممکن ہے۔ ٭ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے کہا تھا: ’’توبیوقوف ہے، کیا تو نے قرآن مجید میں پڑھا ہے کہ ظہر کی نماز چار رکعات ہیں ؟ ظہر میں قراء ت سری ہے، اسی طرح نمازوں کی تعداد، زکوٰۃ کی تفصیلات قرآن میں کہاں موجود ہیں ؟‘‘پھر کہا :’’بے شک کتاب اللہ مجمل ہے او رسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تفسیر کرتی ہے۔‘‘۹؎ ٭ ایک آدمی نے سیدنا مطرف بن عبداللہ الشخیر رضی اللہ عنہ سے کہا: ہمیں قرآن کے علاوہ کچھ بیان نہ کرو۔ اس کو مطرف رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ہم قرآن کے بدلے میں کچھ بیان نہیں کرتے، مگر ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس آدمی (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم)کی سمجھ کے مطابق قرآن کو بیان کریں جو ہم سے زیادہ قرآن کو سمجھنے والا تھا۔‘‘۱۰؎ 2۔ عورت کی دیت کے مسئلہ پر شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کا موقف شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ انتہائی جارحانہ انداز میں فرماتے ہیں : وأھل الحدیث یجعلون دیۃ المرأۃ علی النصف من دیۃ الرجل وھذہ سوأۃ فکریۃ وخلقیۃ رفضھا بعض الفقہاء والمحققون،فالدیۃ فی القرآن واحدۃ للرجل والمرأۃ والزعم بان دم المرأۃ ارخص وحقھا اھون، زعم کاذب مخالفا لظاھر الکتاب ۱۱؎ ’’ محدثین کرام نے عورت کی دیت، مرد کی دیت کا نصف مقرر کی ہے او ریہ بداخلاقی و گھٹیا سوچ ہے، جس کا فقہاء نے انکار کیا ہے ۔
Flag Counter