1۔المیت یعذب ببکاء أھلہ پر شیخ محمد الغزالی کا موقف اس حدیث کے حوالے سے شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث کو سنا تو اس کا انکار کردیا اور قسم کھا کرکہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں نہیں فرمایااور بطور استدلال قرآن کی یہ آیت تلاوت کی:﴿وَلَاتَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ أُخْرٰی﴾ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث ظاہر قرآن کے خلاف ہے اور ’مرفوض‘ ہے۔یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے انکار اور ظاہر قرآن کے خلاف ہونے کے باوجود آج تک کتب صحاح میں موجود ہے بلکہ ابن سعد رحمہ اللہ تواپنی طبقات میں اس حدیث کومتعدد سندوں کے ساتھ لائے ہیں ۔‘‘۵؎ مذکورہ مثال کا جائزہ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کے مذکورہ کلام پر متعدد ملاحظات ہیں : ٭ شیخ محمدالغزالی رحمہ اللہ کے کلام سے محسوس ہوتا ہے کہ فقہاء کرام رحمہم اللہ اور محدثین عظام رحمہم اللہ کے منہج میں فرق ہے، حالانکہ درحقیقت محدثین کرام رحمہم اللہ اور فقہائے عظام رحمہم اللہ کا منہج بعینہٖ ایک ہے۔ صرف مذہب اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ) کے چند اصول، محدثین کرام رحمہم اللہ کے اصولوں سے کچھ مختلف ہیں ، ورنہ من حیث المجموع ائمہ اربعہ سمیت تمام علمائے امت اپنے منہج کے اعتبار سے اہل سنت والجماعت میں ہی شمار ہوتے ہیں ۔ چند جزوی اختلاف کی بنا پر ان کے درمیان خط امتیاز کھینچنا کوئی مناسب رویہ معلوم نہیں ہوتا۔ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ھ)سمیت کسی بھی اِمام سے صحیح احادیث کو رد کرنے کے اصول ثابت نہیں ہیں بلکہ تمام ثقہ ائمہ حدیث و تفسیر اس امر پر متفق ہیں کہ ثابت شدہ (صحیح) حدیث کے مخالف ان آئمہ کے اقول کو رد کردینا واجب ہے۔ رہی بات مخفی علتوں کے ظہور کی تو محدثین کرام رحمہم اللہ اس کے زیادہ حق دار اور اہل ہیں ، کیونکہ تحقیق حدیث انہیں کا میدان ہے۔ اسی طرح مذکورہ حدیث کی تردید کر کے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے صحیح احادیث کو رد کرنے کا کوئی منہج پیش نہیں کیا، بلکہ یہ ان کی انفرادی رائے تھی جس کی غلطی واضح ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء رحمہم اللہ اور محدثین رحمہم اللہ میں سے کسی نے بھی ((إن المیت لیعذب....)) والی حدیث کو رد کرنے پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیروی نہیں کی۔ ٭ اس سلسلہ میں شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ کے کلام کا اندازاچھا نہیں ہے، جیسا کہ ان کا یہ قول: ھذا الحدیث المرفوض،یعنی ’’یہ پھینکی ہوئی حدیث ‘‘ کے الفاظ اس بات پر دلالت کر رہے ہیں ۔سنت کی عظمت و جلالت کو جاننے والا شخص اس قسم کا عامیانہ کلام کو پڑھ یہی تاثر قائم کرے گا کہ علماء کی کلام اس انداز کی نہیں ہونی چاہیے۔ مزید برآں فقہاء رحمہم اللہ اور محدثین رحمہم اللہ میں سے کسی کے ہاں بھی یہ حدیث قابل رفض نہیں ۔ ٭ شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ آج تک اس حدیث کے کتب صحاح میں موجود رہنے پر بھی معترض ہیں اور وہ حسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ایسی احادیث ان کتب سے خارج کیوں نہیں کردی گئیں اور اسی بناء پر محدثین کرام رحمہم اللہ کو اپنی تنقید کا ہدف بناتے ہیں ۔۶؎ ٭ شیخ موصوف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فقہاء کا اصول ہے کہ ثابت نافی پر مقدم ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث مخفی رہ گئی ہو اور دیگر متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔۷؎ |