مُشْرِکِیْنَ﴾ کہنا اور دوسری جگہ ﴿ وَلاَ یَکْتُمُوْنَ اللّٰہ حَدِیْثًا ﴾ کہنا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے مخلص بندوں کی بخشش فرمائیں گے، اس وقت شرک کرنے والے لوگ آپس میں کہیں گے چلو ہم بھی جاکر کہہ دیتے ہیں کہ ہم دنیا میں شرک نہیں کرتے تھے (تاکہ ہماری بھی بخشش ہوجائے) اور اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پرمہر لگا دے گا، تو ان کے ہاتھ (پاؤں ) بول کر ان کے گناہوں کا پردہ چاک کردیں گے، اس وقت انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات چھپانا ممکن نہیں ہے اور اس وقت کافر لوگ بھی یہ خواہش کریں گے کہ کاش ہم اسلام قبول کرلیتے۔ اور جہاں تک آسمان و زمین کی پیدائش کا تعلق ہے تو مطلب دراصل یہ ہے کہ زمین کو دو دن میں پیدا کیا (اور اسے پھیلایا نہیں تھا) پھر آسمان کوپیدا کیا اور دو دن میں اسے برابر کیا (اور اس کے طبقے مرتب کئے) پھر اس کے بعد زمین کوپھیلا دیا اور زمین کے پھیلانے سے مراد یہ ہے کہ اس میں پانی، گھاس ، چارہ، پہاڑ، ٹیلے ، ٹبے وغیرہ پیدا کئے اور یہ اس کا پھیلاؤ دو دن میں ہوا، تو زمین بمع اپنی باقی سب چیزوں کے چار دن میں بنی اور آسمان دو دن میں بنایا گیا۔ اب رہا یہ فرمان ﴿ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْراً رَّحِیْمًا ﴾ تو یہاں کان کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ میں یہ صفات ازل سے ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جوچاہتا ہے اسے حاصل کرلیتا ہے۔(حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سائل سے کہا) لیجئے قرآن کریم کی آیات میں کوئی اختلا ف نہیں ہے (اور یہ ممکن بھی نہیں ہے) کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔‘‘۴۷؎ اس طویل اقتباس کے نقل کرنے سے مقصود یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اختلاف ادلہ کی صورت میں سب سے پہلے اس کا حل جمع و تطبیق سے پیش کرتے تھے اور اسی اصول کو فقہائے اہل الحدیث نے اختیار کیا ہے۔ اور فقہائے اہل الرائے کی طرح وہ اس پر نسخ یا ترجیح کو فوقیت نہیں دیتے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ خیر القرون میں نصوص شرعیہ میں تصادم پیدا کرکے ناسخ ومنسوخ قرار دینے یا بعض دلائل کو بعض پر ترجیح دینے کا رجحان نہیں پایا جاتا تھا، بلکہ تعارض نصوص اور ان کے ظاہر اختلاف کے وقت تطبیق وتوفیق کی صورت ہی کو اولیت وفوقیت حاصل تھی اورتضاد واختلاف کی صورت میں جمع وتطبیق کو چھوڑ کر نسخ یا ترجیح کو اختیار کرنا خلاف اصل سمجھا جاتا تھا۔ فریقین کی کشمکش کا عملی حل ٭ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ (م ۱۱۷۶ھ)کہتے ہیں : ’’ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ فریقین یعنی اہل الحدیث اور اہل الرائے دونوں کے ہاں مسئلہ کا جواب ارشادات ِ فقہاء رحمہم اللہ کے مطابق اور الفاظ حدیث کی تفتیش سے نکالنا، یہ چیز دین میں ایک طے شدہ اصول اور طریقہ کار ہے، نیز علمائے محققین نے ہر زمانے میں دونوں چیزوں کو اختیار کیا ہے، البتہ لوگوں کے رویہ میں اذواق کا فرق ہے، بعض اقوال فقہاء کو زیادہ لیتے ہیں ، حدیث کو کم اور بعض اقوال فقہاء کو کم، جبکہ حدیث کو زیادہ اختیار کرتے ہیں ، لیکن دونوں طریقوں میں اعتدال لازم ہے۔‘‘۴۸؎ ٭ اِمام حسن بصری رحمہ اللہ (م ۱۱۰ھ) نے بھی یہی بات کہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں : ’’ اس خدائے پاک کی قسم کہ جس کے ماسوی کوئی معبود برحق نہیں کہ تمہاری سنت طریقہ دونوں مکتبہ ہائے فکر کے اسالیب استدلال کے درمیان میں ہے۔ ‘‘۴۹؎ چنانچہ دونوں مذاہب کو چاہئے کہ اپنے اپنے مسائل کو ایک دوسرے پر پیش کریں اور اتنا مبالغہ نہ کریں کہ صرف تقلید کی وجہ سے کسی صحیح حدیث یا قیاس کا انکار کردیں یا دوسری طرف تفقّہ فی الدین سے بد ظنی اختیار کرتے ہوئے ’ظاہر حدیث‘ پر عمل کرکے شریعت |