کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ جس شخص کا عمل نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا، اس کا آسان حساب ہوگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس سے مراد صرف اعمال کا اسے بتا دینا ہے، لیکن جس شخص سے حساب و کتاب میں کرید شروع ہوگئی وہ مارا جائے گا۔‘‘ تعارض الادلہ کی صورت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی اندازِ فکر وہی تھا،جس کے علم بردار فقہائے اہل الحدیث ہیں ۔چنانچہ جب بھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے نصوصِ شرعیہ میں تعارض کا سوال اٹھایا جاتا تو سب سے پہلے وہ جمع و تطبیق کے اصول کو زیر عمل لاتے اور ان میں موافقت کی صورت اختیار فرماتے تھے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کرتے ہوئے کہا: إنی أجد فی القرآن أشیاء تختلف علیّ قال: ﴿ فَلاَ أَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلاَ یَتَسَائَ لُوْنَ ﴾ ،﴿ وَأَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَائَ لُوْن َ﴾ .... ﴿ وَلاَیَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا﴾ ، ﴿ رَبَّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ ﴾ فقد کتموا فی ھذہ الایۃ .... وقال ﴿ أَمِ السَّمَائُ بَنَاھَا إِلٰی قَوْلِہٖ دَحَاھَا ﴾ فذکر خلق السماء قبل خلق الأرض ثم قال ﴿ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْأَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ إِلٰی طَائِعِیْنَ﴾ فذکر فی ھذہ خلق الأرض قبل السماء وقال ﴿ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْراً رحیماً، عزیزاً حکیماً، سمیعاً بصیرًا﴾ فکأنہ کان ثم مضٰی ’’میں قرآن کی چند آیات میں اختلا ف پاتا ہوں ،ایک آیت میں آتا ہے ’’اس (قیامت کے) دن نہ تو آپس کے رشتے ہی رہیں گے اور نہ آپس میں سوال و جواب کریں گے‘‘ اور دوسری آیت میں یوں ہے ’’وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوا ل وجواب کریں گے.... اسی طرح ایک آیت میں آتا ہے ’’وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے‘‘ اور دوسری آیت میں ہے کہ وہ کہیں گے: ’’ قسم ہے اللہ ہمارے پروردگار کی ہم شرک نہیں کرتے تھے۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے شرک کو چھپائیں گے.... اسی طرح ایک آیت میں آتا ہے ’’کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا جسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ اور اس کے بعد زمین کوبچھایا ہے، تو اس آیت میں آسمان کی پیدائش کو زمین سے پہلے ذکر کیا ہے، لیکن دوسری آیت میں ہے:’’کیا تم اس اللہ کا انکار کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کی، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین، آسمان سے پہلے پیدا ہوئی ہے۔ اسی طرح فرمایا: ﴿وکان اللّٰہ غفورًا رحیمًا، عزیزًا حکیمًا ، سمیعًا بصیرًا﴾ ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان صفات سے (زمانۂ ماضی میں ) موصوف تھا، اب نہیں ہے۔‘‘ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان ظاہری اختلافات کا حل تطبیق کی صورت میں پیش کیا اور فرمایا: ﴿ فَلاَ أَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَّلاَ یَتَسَائَ لُوْن ﴾ فی النفخۃ الأولی ﴿ ثُمَّ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَائَ اللّٰہُ ﴾ ﴿ فَلاَ أَنْسَابَ بَیْنَہُمْ عِنْدَ ذٰلِکَ وَلاَ یَتَسَائَ لُوْن ﴾ ثم في النفخۃ الاخرۃ ﴿ أَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَائَ لُوْنَ ﴾ ....الخ ’’ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں کہا: اللہ تعالیٰ کا فرمان﴿ فَلاَ أَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلاَ یَتَسَائَ لُوْن ﴾ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پہلا صور پھونکا جائے گا اور آسمانوں و زمین والے سب بے ہوش ہوجائیں گے، اس وقت رشتے ناطے باقی نہیں رہیں گے اور نہ ایک دوسرے سے سوال کریں گے (دہشت زدہ ہونے کی وجہ سے نفسی نفسی کا عالم ہوگا) لیکن دوسری آیت﴿وَأَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَائَ لُوْنَ﴾ یہ دوسری دفعہ صور پھونکنے کے بعد ہوگا (میدان محشر میں جب ہوش و حواس ٹھکانے آئیں گے) اسی طرح ان کا ﴿مَا کُنَّا |