٭ علامہ محمد عبدالحئ لکھنوی رحمہ اللہ (م ۱۳۰۴ھ) نسخ اور ترجیح کو جمع و تطبیق پر مقدم کرنے کے اُصول کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اختار جمع من الحنفیۃ تقدیم النسخ علی الجمع.... لکن فیہ خدشۃ من حیث أن إخراج نص شرعی عن العمل بہ مع إمکان العمل بہ غیر لائق فالأولی أن یطلب الجمع بین المتعارضین بأی وجہ کان بشرط تعمق النظر وغوص الفکر فان لم یمکن ذلک بوجہ من الوجوہ أو وجد ھناک صریحًا ما یدل علی ارتفاع الحکم الأول مطلقا صیر إلی النسخ إذا عرف ما یدل علیہ وھذا ھوالذی صرح بہ أھل أصول الحدیث۴۴؎ ’’جماعت ِحنفیہ نے جمع و تطبیق پر نسخ کو مقدم کرنے کی رائے کو اختیار کیا ہے حالانکہ یہ رائے مجروح و مخدوش ہے کیونکہ اس سے ایک شرعی دلیل اُمت کے عمل سے خارج ہوجاتی ہے، حالانکہ عمل ممکن ہونے کے باوجود ایک شرعی نص کو عمل سے نکال باہر کرنا غیر مناسب روش ہے۔ چاہئے تو یہ کہ پورے غوروخوض کے ساتھ جیسے بھی ممکن ہو، دو متعارض دلیلوں میں جمع اور تطبیق دی جائے اور اگر یہ کسی طرح بھی ممکن نہ ہو یا وہاں پہلے حکم کے اٹھائے جانے پر کوئی واضح اور صریح دلیل موجود ہو، تو دلیل کے ساتھ نسخ کو اختیار کیا جائے گا، علماء اصولِ حدیث نے اسے صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔‘‘ ٭ علامہ لکھنوی رحمہ اللہ (م ۱۳۰۴ھ)علامہ حازمی رحمہ اللہ (م ۵۸۴ھ)کے قول کو نقل کرتے ہوے مزید فرماتے ہیں : وفی کتاب الاعتبار للحازمی ادعاء النسخ مع إمکان الجمع بین الحدیثین علی خلاف الأصل إذ لاعبرۃ بمجرد التراخی ’’انتہی کلامہ فی باب‘‘ الرجل یؤذن ویقیم غیرہ، وقال فی مقدمۃ الکتاب إن کان منفصلا نظرت ھل یمکن الجمع بینہما أم لا فإن أمکن الجمع جمع إذا لا عبرۃ بالانفصال الزمانی مع قطع النظر عن التنافی ومہما أمکن حمل کلام الشارع علی وجہ یکون أعم للفائدۃ، کان أولی،صونا لکلامہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأبی ھو وأمی۔ عن سمات النقص ولأن فی ادعاء النسخ إخراج الحدیث عن المعنی المقید وھو علی خلاف الأصل۴۵؎ ’’علامہ حازمی رحمہ اللہ (م ۵۸۴ھ)نے کتاب الاعتبار ،باب الرجل یؤذن ویقیم غیرہ کے تحت ذکر کیا ہے کہ دوحدیثوں میں جمع و تطبیق کے ممکن ہونے کے باوجود صرف ان کی تقدیم و تاخیر کے پیش نظر نسخ کا دعویٰ کردینا اصل کے خلاف ہے اور انہوں نے کتاب کے مقدمہ میں کہا ہے، اختلاف کی صورت میں دیکھا جائے گا کہ دونوں احادیث میں جمع ممکن ہے یا نہیں ؟ اگر ان میں جمع و تطبیق ممکن ہو تو اسی کواختیار کیا جائے گا اور تضاد سے قطع نظر صرف اختلاف زمانی کونہیں دیکھا جائے گا۔اور جہاں تک ممکن ہو کلام شارع کو ایسی صورت پر محمول کرنا ہی مقدم ہے جس کا فائدہ عام اور زیادہ ہو۔ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام عیب دار ہونے سے محفوظ رہے اور اس لئے بھی کہ ایک حدیث کو منسوخ قرار دے دینے سے وہ مفید معنی دینے سے خارج ہوجائے گی جو کہ خلاف اصل ہے۔‘‘ ’تعارض الادلہ‘ میں نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کا طرز عمل متعارض حدیث کے حل کے جس متوازن طریقہ کار کی علامہ لکھنوی(م ۱۳۰۴ھ) نے نشاندہی فرمائی ہے، خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز اس سلسلہ میں یونہی تھا کہ جب آپ کی خدمت اقدس میں دو دلیلوں میں ظاہری تعارض کا مسئلہ درپیش ہوتا، تو آپ بھی اس کا حل دونوں میں جمع و تطبیق کی صورت میں مرحمت فرماتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: قالت قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم (( لیس أحد یحاسب إلا ھلک)) قالت قلت: یا رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم (( جعلنی اللّٰہ فداء ک ألیس یقول اللّٰہ عزوجل:فأما من أوتی کتابہ بیمینہ فسوف یحاسب حسابا یسیرا قال: ذلک العرض یعرضون،ومن نوقش الحساب ھلک)) ۴۶؎ ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس شخص سے قیامت کے دن حساب لیا گیا وہ تباہ ہوجائے گا، میں نے |