اگر ان میں سے ایک کا ناسخ ہونا اور دوسری کا منسوخ ہونا (دلیل سے) معلوم ہوجائے، تو ناسخ پر عمل ہوگا اور منسوخ کو چھوڑ دیا جائے گا اور اگر اس نسخ پرکوئی دلیل موجود نہ ہو، تو آخر کار اس وقت ترجیح کا سہارا لیا جائے گا اور ترجیح کی پچاس صو رتوں (جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ) میں سے کسی کوزیر عمل لاتے ہوئے راجح پر عمل کیا جائے گا۔‘‘ ٭ فقہاء اہل الحدیث رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کوئی صحیح حدیث دوسری صحیح حدیث یا قرآن کریم کی آیت کے حقیقت میں متعارض نہیں ہوسکتی۔ ٭ اس سلسلہ میں اِمام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (م ۳۱۱ھ) فرماتے ہیں: لا أعرف أنہ روی عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم حدیثان بإسنادین صحیحین،متضادان فمن کان عندہ فلیأت بہ حتی أؤلّف بینہما ۴۱؎ ’’میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اسانید سے منقول دو حدیثیں بھی ایسی نہیں ہیں جو مفہوم کے اعتبار سے متعارض اور باہم مخالف ہوں ، اگر کسی شخص کے علم میں ایسی متضاد اور متعارض احادیث ہیں تو میرے پاس لائے میں ان میں مطابقت اور موافقت ظاہر کروں گا۔‘‘ ان کا یہ قول اس بنا پر ہے کہ جب دو حدیثیں صحیح سند سے ثابت ہوجائیں تو اپنے ثبوت کے اعتبار سے قطعی ہو جاتی ہیں اور ان میں اختلاف وتضاد نا ممکن ہے۔ اس لئے محدثین خصوصاً ابن قتیبہ رحمہ اللہ (م ۲۷۶ھ)، شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)اور دوسرے کثیر محدثین نے مشکل الآثار اور مشکل الحدیث وغیرہ کے عنوان سے اس قسم کی تمام اخبار کا بڑا ہی عمدہ حل پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِمام دارمی رحمہ اللہ (م۲۵۵ھ) نے اپنی سنن کے شروع میں امام یعلی بن حکیم رحمہ اللہ (م ۱۲۰ھ)کے طریق سے حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ (م ۹۵ھ)سے یہ روایت کیا ہے: ’’ ان سے کسی نے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے حدیث سے بتایا، سائل نے کہا کہ یہ تو قرآن کریم کے خلاف ہے۔ تو انہوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم قرآن کے مخالفت کیلئے تشریف لائے تھے۔‘‘ ۴۲؎ لیکن اس کے برعکس اہل الرائے کے اصول کا رجحان دلائل شرعیہ کو آپس میں ٹکرانے اور ان میں تصادم پیداکرنے کا ہے۔ لہٰذا اختلافِ حدیث میں ان کے ہاں جمع و تطبیق کی بجائے نسخ مقدم ہے اور اس کے بعد ترجیح کی صورت اختیار کی جاتی ہے اور ان دونوں اُصولوں کے پیش نظر ثبوتِ صحت کے باوجود کلامِ شارع کے ایک حصے کانسخ یا مرجوح کہہ کر اس کا ترک لازم آتا ہے۔ ٭ صاحب ’مسلم الثبوت‘ رحمہ اللہ نے فقہائے اہل الرائے کے اس اصول کو یوں ذکرکیا گیا ہے: وحکمہ النسخ إن علم المتقدم وإلا فالترجیح إن أمکن وإلا فالجمع بقدر الإمکان وإن لم یمکن تساقطا۴۳؎ ’’تعارض کے وقت حکم یہ ہے کہ دو متعارض دلائل میں اگر مقدم دلیل معلوم ہوجائے تو اسے منسوخ قرار دے کر چھوڑ دیا جائے گا، ورنہ دو دلائل میں سے ایک کو راجح قرار دیا جائے گا اور مرجوح کو چھوڑ دیا جائے گااور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دونوں کو جمع کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دونوں متعارض دلیلوں کو ناقابل اعتبار قرار دے دیا جائے گا۔‘‘ معتدل مزاج حنفی علماء کا مسئلہ تعارض الادلہ میں طرز عمل فقہاے اہل الرائے کے مذکورہ طرز عمل سے چونکہ شرعی دو دلیلوں میں سے ایک کا اہمال اور ترک لازم آتا ہے، اس لئے اہل الرائے کے معتدل علما نے ا س اصول کا انکار کیا ہے اور فقہاے اہل الحدیث کے اصول کی حمایت کی ہے۔ |