ٹھہرتی ہے او راگر کوئی حدیث ان کے اصول ہائے درایت سے متصادم دکھائی پڑتی ہے تو وہ خبر واحد قرار دے کر رد کردی جاتی ہے۔ گویا فہم انسانی اور ذوق استنباط کو شریعت اسلامیہ پر مہیمن بنادیا گیا ہے اور یوں اس ذوق ودرایت کی نگرانی میں احادیث کے رد وقبول کی ترازو ا ور میزان قائم کردی گئی ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ فقہائے اہل الرائے حدیث کا انکار یا استخفاف تو نہیں کرتے، لیکن انہوں نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی شکل دی ہے جو کہ ان کے ائمہ کی فقہ کے خلاف نہ ہو۔ چنانچہ نقدروایت کے درایتی معیار کے جتنے اصول ان لوگوں نے متعارف کروائے ہیں ، ان کو انہوں نے اگرچہ ’احتیاط مزید‘ کے نام سے پیش کیا ہے، لیکن ہمارے خیال میں ’فن تحقیق ِروایہ‘ کی روشنی میں جب ایک روایت کو پرکھ لیا جاتاہے تو اس کی’تحقیق ِمزید‘ کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟ در اصل اس قسم کے سب اصول، حدیث کا مقام گرانے کے مترادف ہیں ۔ان تمام درایتی اصولوں کی مفصل بحث چونکہ باب نمبر۳، ۵، ۶ میں موجود ہے، لہٰذابے جا طوالت سے گریز کرتے ہوئے ان کو مکرر ذکر کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا، تاہم تفصیل اور امثلہ مذکورہ ابواب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔ 2۔ متعارض احادیث میں فریقین کا طرز عمل دونوں مکاتب فکر کے اصول اختلاف کی بنا پر برآمد ہونے والا دوسرا اساسی نتیجہ یہ ہے کہ جب کسی ایک مسئلہ دو باہم متعارض احادیث موجود ہوں تو اس صورتحال میں متعلقہ مسئلہ کس حدیث کی روشنی میں شرعی راہنمائی فراہم کی جائے گی؟ کیا دونوں متعارض احادیث کو جمع کیا جائے گا یا پھر ایک کو مرجوح یا منسوخ قرار دیتے ہوئے دوسری کو راجح یا ناسخ تسلیم کیا جائے گا۔ فقہائے اہل الحدیث کا مذکورہ صورت میں موقف یہ ہے کہ دونوں متعارض احادیث میں جمع وتطبیق کے ذریعے سے کسی پیش آمدہ مسئلہ میں راہنمائی فراہم کی جائے گی، کیونکہ دونوں احادیث صحیح ہیں ، جن کا شریعت ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ لہٰذا دونوں پر بیک وقت عمل کرنا، کسی ایک حدیث کو چھوڑنے کی بہ نسبت بہرحال افضل و اَولی ہے، لیکن اگر جستجو ئے بسیار کے باوجود جمع وتطبیق ممکن نہ ہو اور کسی دلیل کی بنیاد پر ایک کا ناسخ اور دوسری کا منسوخ ہونا معلوم ہوجائے تو ناسخ حدیث قابل عمل قرار پائے گی اور منسوخ غیر معمول بہ! اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو بہ امر مجبوری ترجیح کی مختلف صورتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قرائن کی بنیاد پر جو حدیث راجح معلوم ہوگی اس پر عمل کرلیا جائے گا۔ ٭ محدث ابن صلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ھ) اپنے ’مقدمہ‘ میں ’معرفۃ مختلف الحدیث‘ کے عنوان کے تحت فقہائے اہل الحدیث کے اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اعلم أن ما یذکر فی ھذا الباب ینقسم إلی قسمین: أحدھما أن یمکن الجمع بین الحدیثین ولا یتعذر إبداء وجہ ینفی تنافیہما فیتعین حینئذ المصیر إلی ذلک والقول بہما معًا۔ القسم الثانی: أن یتضادا بحیث لا یمکن الجمع بینہما وذلک علیٰ ضربین: أحدھما أن یظھر کون أحدھما ناسخا والاخر منسوخا فیعمل بالناسخ ویترک المنسوخ والثانی أن لا تقوم دلالۃ علی أن الناسخ أیھما والمنسوخ أیھما فیفزع حینئذ إلی الترجیح ویعمل بالأرجح فیہما والأ ثبت کالترجیح بکثرۃ الرواۃ أو بصفاتہم فی خمسین وجہا من وجوہ الترجیحات وأکثر ولتفصیلہا موضع غیر ذا ۴۰؎ ’’خوب جان لیں کہ جب دو احادیث میں بظاہر اختلاف پایا جائے تو سب سے پہلے ان میں جمع اور تطبیق کی صورت اختیار کی جائے گی جبکہ یہ ممکن ہو اور ان دونوں کے اختلاف کو دور کرنے کے لئے موافقت پیدا کرنا دشوار نہ ہو تو ایسی حالت میں جمع اور تطبیق کے ذریعے سے دونوں پر عمل کرنا متعین ہوجائے گا، لیکن اگر وہ اختلاف ایسا ہو جس کے ہوتے ہوئے دونوں کو جمع کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں، |