Maktaba Wahhabi

272 - 432
حرام! ایک فقہ کو شریعت کی حتمی تعبیر کا نام دیتا ہے تودوسرے اس کو انطباق محض مانتا ہے۔ ایک اپنے اصول استدلال کو شریعت سے اخذ کرتا ہے، تو دوسرا اپنے فقہی ذخیرہ کی روشنی میں مرتب کردہ اصولوں سے شریعت کا مطالعہ کرتا ہے۔ ایک اگر تقلید کوواجب کہتا ہے تو دوسرا اس پر سخت حرمت کا فتوی لگاتا ہے۔ ایک کے نزدیک قیاس کا مدار صرف نص شرعی ہے تو دوسرے کے ہاں آئمہ کے استنباطات میں غور وخوض کرکے مزید مسائل استخراج کرنے کا نام بھی قیاس رکھا جاتا ہے۔ ہمارا ان سطور سے مقصود یہ ہے کہ اہل الحدیث اور اہل الرائے کے ان مختلف فیہ اصول ہائے استدلال سے چند اساسی نتائج برآمد ہوتے ہیں ، جو ایسے گھمبیر ہیں کہ جن سے ایک مسلمان کا عقیدہ وفقہ بیک وقت متاثر ہوتے ہیں اور حیات انسانی کا کوئی گوشہ بھی ان نتائج کے مضر اثرات سے مامون نہیں رہتا ہے۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان دو مختلف مکاتب فکر کے اصول اختلاف کی بنیاد پر مترتب ہونے والے چند اساسی نتائج کا تذکرہ کردیں تاکہ اصول شریعت کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص ان سے باخبر رہے اور اختلاف دلائل کی صورت میں اپنے احساس وشعور سے آزادی فکر کے ساتھ کسی مکتبہ خیال کی جانب اپنی رائے اور رجحان کا اظہار کرسکے۔ وہ اساسی نتائج ہمارے خیال میں دو ہیں : 1۔ دین وشریعت میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام 2۔ متعارض احادیث میں فریقین کا طرز عمل ذیل کی سطور میں ہم ان میں سے ہر ایک کا مقدور بھر جائزہ پیش کیے دیتے ہیں: 1۔ دین وشریعت میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اہل الحدیث کے نزدیک جب کوئی حدیث سند یا ثبوت کے اعتبار سے قابل اطمینان معیار کی حامل ہو تو اس کا اتباع واجب ہے اور کسی شخص کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ صحت سند یا صحت نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باوجود محض اپنے درایتی نقد یا ذوق کی بناپر اس حدیث کو رد کرے۔ اپنے اس اساسی اصول کی بنیاد پر اہل الحدیث اس بارے میں کوئی فرق نہیں کرتے کہ روایت کے موصول ہونے کا ذریعہ کیا ہے؟ بلکہ انہیں غرض صرف صحت ثبوت کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایت کے وصول ہونے کا ذریعہ آحاد ہو یا تواتر، ان کے نزدیک برابر اتباع کا متقاضی ہے، کیونکہ اصل مسئلہ خبرواحد یا خبر متواتر کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ مروی شے کے شرعی مقام کا ہے اور جب کسی قول، فعل یا تقریر کا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی نسبت سے شریعت ہونا ثابت ہوجاتا ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس کو’ذریعہ اضافی‘ کی بنا پر خبر واحد قرار دے کر انکار کردیا جائے، کیونکہ یہ انکار در اصل خبر واحد کی بجائے شریعت کے ایک حصہ کا انکار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خبر واحد کے ذریعے موصول ہونے والی یہی حدیث حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی آنکھوں کا سرمہ تھی اور وہ اس کو شریعت ہونے کی وجہ سے اپنے دل وجان سے بھی عزیز خیال کرتے تھے۔ لہٰذا اہل الحدیث کے نزدیک یہ ایک انتہائی نامعقول بات ہے کہ خبر واحد کا نام لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور مابعد امت کے لیے شریعت میں دوئی پیدا کردی جائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے توتمام شرعی نصوص کا اپنی قبولیت میں ایک ہی مقام ہو، جبکہ دیگر امت کے لیے دین دو حصوں ( یعنی خبر متواتر اور خبر واحد) میں تقسیم رہے۔ اس کے برعکس اہل الرائے کے ہاں اعتصام بالحدیث کے سلسلہ میں عام طور پر مختلف رجحان پایا جاتا ہے اور وہ براہ راست حدیث نبوی سے اعتصام اور تمسک نہیں کرتے، ان کے ہاں کسی حدیث کے قبول ورد کی ترازو دراصل خبر واحد اور خبر متواتر ہے۔ یعنی جو حدیث ان کے اصول ِ درایت کی مطابق ہوتی ہے وہ ’مشہور‘ قرار پاکر شریعت کا درجہ حاصل کرلیتی ہے، جو ان کے ہاں واجب الاتباع
Flag Counter