Maktaba Wahhabi

271 - 432
کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ فقہ کو شریعت کی مثل زیادہ سے زیادہ جامع بنایا جا سکے۔ 6۔ مسئلہ دوام فقہ اہل الرائے کے ہاں جیسے شریعت دائمی ہے اسی طرح فقہ بھی چونکہ مستقل حیثیت کی حامل ہے ا س لئے وہ بھی دائمی ہوتی ہے، جبکہ اہل الحدیث کے ہاں فقہ ایک ضرورت ہے، اس لیے جب وہ ضرورت ختم ہوجاتی ہے تو فقہ بھی ختم ہوجاتی ہے، چنانچہ باقی انسانوں کے لئے پھر شریعت اصل ہوتی ہے،وہ فقہی مسئلہ نہیں ۔۳۵؎ اسی بنیاد پر اہل الحدیث کے ہاں تقلید کا وجود نہیں ، کیونکہ فقہ ضرورت پوری ہونے کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ 7۔ مسئلہ اِکراہ اہل الرائے کے ہاں قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ (م ۱۸۲ھ)نے چونکہ مکراہ شخص کی طلاق کے لاگو ہونے کا فیصلہ دیا تھا اور حنفی اصول کہ مجتہد کی رائے مثل شرع ہوتی ہے، چنانچہ یہ بطور فتوائے مجتہد شرعی اصول قرار پاگیا۔۳۶؎ اس سلسلہ میں اہل الرائے کے موقف کی یہ ایک مثال ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ شرعی طور پر فقہ یا اجتہاد کو کس نوعیت اور نظر سے دیکھتے ہیں ، جبکہ اہل الحدیث کے ہاں مُکرَاہ کی کوئی چیز لاگو نہ ہوگی۔ یہی وہ مسئلہ ہے کہ جب اِمام مالک بن انس رحمہ اللہ (م۱۷۹ھ) نے کسی خلیفہ کی جبر ی بیعت کے لغو ہونے کا فتوی دیا تھا تو اس پر ان کے خلاف سخت کارروائی ہوئی۔۳۷؎ 8۔ مسئلہ حجیت قول صحابی اہل الرائے کے ہاں صحابی کا قول اجتہادی حجت ہے اس کے برعکس اہل الحدیث قول صحابی کی اہمیت کے تو قائل ہیں لیکن اسے شریعت کی طرح حجت نہیں سمجھتے۔۳۸؎ 9۔ مسئلہ اجتہاد اہل الرائے جب ایک اصول اجتہاد قائم کرتے ہیں تو پھر اس اصول کو مستقل حیثیت دینے کی وجہ سے اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے : ﴿ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبِیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْر﴾ ۳۹؎ اس سے انہوں نے اصول قائم کیا کہ اب جبکہ سنت میں آگیا کہ اگر پلیٹ میں کچھ بچا ہو تو اسے ختم کرنا جائز ہے، تو قرآن کریم کی روشنی میں اجتہاد سے اصول قائم کرلینے کے بعد وہ اس اصول کو توڑنے سے بچنے کے لئے سحری بند ہوتے ہی کھانا پینا بند کردیتے ہیں ۔ مکراہ کی طلاق کے سلسلہ میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ (م ۱۸۲ھ)کا فتوی اسی قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔ دونوں مکتبہ ہائے فکر کے اختلاف کے اساسی نتائج گذشتہ صفحات میں ہم نے چند وہ اسباب واثرات ذکر کرنے کی کوشش کی ہے جن کو اہل الحدیث اور اہل الرائے کے مابین رونما ہونے والے اختلافات کے بنیادی اصول کہا جاسکتا ہے۔ دونوں مکاتب فکر کے یہ اصول ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں اور ان کا یک جا ہونا ناممکن ہے، کیونکہ دونوں میں بُعد المشرقین پایا جاتا ہے۔ ایک کے ہاں قیاس در قیاس جائز ہے تو دوسرے کے ہاں
Flag Counter