اپنی چرب زبانی سے کسی عورت کو اپنی بیوی ثابت کردے اور قاضی ظاہری قرائن کی موجودگی میں اس عورت کو اس کی بیوی قرار دے دے حالانکہ وہ اس کی بیوی نہ ہو تو اس کے باوجود اس شخص کے لئے اس عورت سے وطی اور استمتاع جائز ہے اور وہ فیصلہ حقیقت میں بھی لاگو ہوگا۔ اس لئے اہل الرائے کے ہاں ضابطہ یوں ہے: قضاء القاضي ینفذ ظاھرا وباطنا ۲۸؎ ، جبکہ اہل الحدیث کے ہاں قاعدہ یوں ہے: قضاء القاضی ینفذ ظاھرا لا باطنا۔۲۹؎ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی دوسری بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو اشخاص کے درمیان زمین کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’اگر کوئی شخص اپنی تیز زبان کی وجہ سے مجھ سے اپنے حق میں کوئی غلط فیصلہ کروا لیتا ہے تو روزِ قیامت وہ سات زمینیں اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا۔‘‘۳۰؎ 5۔ مسئلہ ضرورت فقہ قیاس کے بارے میں جو موقف ائمہ محدثین مثلا اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ)، اِمام احمد رحمہ اللہ (م ۲۴۱ھ) اور اِمام مالک رحمہ اللہ (م۱۷۹ھ) و غیرہ نے پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ قیا س ضرورت کے وقت مشروع ہے اور اگر خبر موجود ہو تو قیا س بالکل بھی جائز نہیں ہے۔ ٭ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ) لکھتے ہیں : لا یحل القیاس و الخبر موجود کما یکون التیمم طھارۃ عند الاعواز من الماء و لا یکون طھارۃ اذا وجد الماء إنما یکون طھارۃ فی الاعواز ۳۱؎ ’’خبر کی موجودگی میں قیا س بالکل بھی جائز نہیں ہے،جیسا کہ تیمم اس وقت طہارت کا فائدہ دیتا ہے جبکہ پانی موجود نہ ہو،لیکن اگر پانی موجود ہو توتیمم ے طہارت حاصل نہ ہو گی۔ ‘‘ ٭ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ھ)امام احمد رحمہ اللہ (م ۲۴۱ھ) کے حوالے سے لکھتے ہیں : فإذا لم یکن عند الإمام أحمد فی المسألۃ نص و لا قول الصحابۃ أو واحد منھم و لا أثر مرسل أو ضعیف عدل إلی الأصل الخامس و ھو القیاس فاستعملہ للضرورۃ۳۲؎ ’’پس جب اِمام احمد رحمہ اللہ (م ۲۴۱ھ)کے پاس کسی مسئلے میں نص یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قول یا قول صحابی یا کوئی مرسل روایت یا ضعیف خبر نہیں ہوتی تو وہ کسی مسئلے کے حل کے لیے اپنے پانچویں اصول کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور وہ قیاس ہے پس وہ قیاس کو ضرورتاًاستعمال کرتے ہیں ۔‘‘ ٭ اسی موقف کو اِمام ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ)نے بھی بیان کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں : القیاس مشروع عند الضرورۃ لا أنہ أصل برأسہ ۳۳؎ ’’قیاس تو صرف ضرورت کے وقت ہوتا ہے نہ کہ یہ بذاتہ کوئی اصل ہے۔‘‘ اس کے برعکس اہل الرائے کے ہاں قبل از ضرورت مسئلہ بھی نکالا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی کو زیادہ سے زیادہ جامع بنانے کے لئے مسائل پیش آنے سے قبل ایسے ایسے اجتہادات کئے گئے کہ وہ عقلاً و عملاً پیش آنا محال ہیں ۔۳۴؎ اسی بنا پر اہل الرائے کو بعض علماء نے الأَرَأَیْتِیُّون کہا ہے۔یعنی جو أرأیت کذلک کے بے جا سوالات پیدا کرکے فقہ تقدیری کے نام پر قبل از وقوع جواب فراہم |