یہ خبر کا قیاس کے ذریعے رد شمار ہو گا اور ایسا رد بالاتفاق مردود ہے کیونکہ سنت ہر حال میں قیا س پر مقدم ہوتی ہے۔‘‘۲۳؎ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (م ۱۱۷۶ھ)نے حجّۃ اللّٰہ البالغۃمیں فقہاء کرام رحمہم اللہ کے ان دونوں مکاتب فکر کوتفصیل سے بیان کیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب بعض جامد مقلدین نے تقلید کے لئے حدیث سے کنارہ کشی شروع کی تو اہل الرائے او راہل الحدیث کا مذکورہ اختلاف بڑھ گیا۔ بعد کے زمانوں میں اس اختلاف نے مسائل میں جو صورتحال اختیار کی، ذیل میں ہم ان میں سے چندمشہوراصول اورمسائل ذکر کرتے ہیں جن سے یہ اختلاف مزید تفصیل سے کھل کر سامنے آجائے گا: 1۔ مسئلہ تقلید اِمام اہل الحدیث کے ہاں اتباع صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اِمام کی اتباع اس لئے واجب نہیں کہ اس کی بات میں غلطی کا بھی احتمال ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ وحی کے حوالے سے بات کرتے ہیں ، ا س لئے آپ کی بات کی غلطی کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس اہل الرائے تقلید کو واجب سمجھتے ہیں کیونکہ قرآن کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تو قابل اتباع ہے، چنانچہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح جب ائمہ فرمائیں تو وہ بھی ہمارے حق میں واجب الاتباع ہے۔ اس کے برعکس اہل الحدیث کے ہاں اتباع صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اِمام کی اتباع اس لئے واجب نہیں کہ اس کی بات میں غلطی کا بھی احتمال ہے جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ وحی کے حوالے سے بات کرتے ہیں اس لئے آپ کی بات میں غلطی کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ ۲۴؎ 2۔ مسئلہ تدوین اصول فقہ اہل الحدیث کے ہاں اصول فقہ قرآن و حدیث کے تفقّہ کے لئے ہیں چنانچہ وہ ان سے براہ راست استفادہ کرتے ہیں یعنی قرآن و سنت سے فقہ کی طرف آئے ہیں جبکہ اہل الرائے کے ہاں اصول فقہ فہم شریعت کے لئے نہیں بلکہ فقہ اِمام کے ثبوت کے لئے ہوتے ہیں اس لئے ان کے ہاں پہلے فقہ ہوتی ہے اور پھر اصول، چنانچہ وہ فقہ سے قرآن و سنت کی طرف آتے ہیں ۔ پہلے طریقہ کو متکلمین کا طریقہ اور دوسرے کو حنفی طریقہ کہا جاتا ہے۔ ۲۵؎ 3۔ مسئلہ قیاس در قیاس اہل الحدیث کے ہاں قیاس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس اصل کی بنیاد پر کیا جائے، اس اصل کے لئے قرآن کریم یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہونا ضروری ہے کیونکہ حتمی و قطعی یہی دونوں چیزیں ہیں ۔ لیکن اہل الرائے ایک قیاس کے لئے دوسرے قیاس کو اصل بنا لینے کے بھی قائل ہیں ، جسے قیاس درقیاس کہتے ہیں ۔ ۲۶؎ کیونکہ ان کے ہاں اِمام کا اجتہاد بھی مستقل اور حتمی قسم کی چیز ہے اس طریقے سے صورت حال اس حد تک خراب ہوتی ہے کہ قیاس درقیاس کرتے ہوئے بات کہیں کی کہیں نکل جاتی ہے۔ اسی تخریج مسائل درتخریج مسائل کی وجہ سے حجۃ اللّٰہ البالغۃ میں شاہ صاحب رحمہ اللہ (م ۱۱۷۶ھ)نے اہل الرائے کو أہل التخریج کے نام سے بیان کیا ہے۔ ۲۷؎ 4۔ مسئلہ قضاء قاضی اہل الرائے کے ہاں قاضی،جو کہ مجتہد ہوتا ہے، کا فیصلہ حقیقت میں بھی لاگو ہوتاہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ اگر کوئی شخص |